سرکاری محکموں بالخصوص تعلیم و صحت میں 2 طرح کے سرکاری ملازمین بھرتی کئے جاتے ہیں ایک انتظامی امور کی انجام دہی کیلئے اور دوسرے تدریسی یا علاج معالجے کی عملی خدمات کی فراہمی کو ممکن بناتے ہیں۔ یوں انتظامی و عملی درجات کیلئے تعلیم و اہلیت اور قابلیت کے الگ الگ پیمانے مقرر ہوتے ہیں مثال کے طور پر انتظامی عہدے پر کوئی ایسا شخص تعینات نہیں ہو سکتا جس کے پاس متعلقہ علوم مکمل اور امتیازی حیثیت سے حاصل کرنے کی اسناد موجود نہ ہوں۔ یہی پیمانہ دوسری نوعیت کے یکساں اہم شعبے کیلئے بھی مقرر کیا جاتا ہے اور یوں سرکاری اداروں کے امور الگ الگ شعبوں کے ماہرین کے حوالے کئے جاتے ہیں اور نظم و ضبط سے متعلق یہ بندوبست برقرار رکھا جائے تو اِس سے تعلیم ہو یا صحت یا دیگر سرکاری محکمے اِن کی ادارہ جاتی کارکردگی‘ فعالیت اور توسیع میں وقت کے ساتھ نکھار آتا ہے۔ سرکاری ملازمین کو انتظامی و عملی درجہ بندی میں تقسیم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اِس سے ادارے کے وسائل کی بچت ہو اور فیصلہ ساز غیرضروری تجربات سے گریز کریں تاہم جس نوعیت کا یہ مسئلہ ہے اور جس قدر پرانا یہ مسئلہ ہے اس کے باعث مشینر ی کی پوری صفائی ممکن نہیں اورشاید یہی وجہ ہے کہ کچھ شعبوں میں نتائج اس قدر مثبت سامنے نہیں آئے جس قدر اس کیلئے کوشش اور منصوبہ بندی کی گئی یہ اور سرکاری مشینری اگر موثر انداز میں کام نہ کرے تو اس کے اثرات دور رس ثابت ہوتے ہیں۔ اِس نتیجہ خیال کو سمجھنے کیلئے صرف ایک مثال کا ذکر کافی ہوگا اُور قارئین فوری طور پر نتیجے تک پہنچ جائیں گے۔ فرق عیاں ہے کہ سرکاری اِداروں میں جہاں اَفرادی قوت اُور مالی وسائل کی کمی نہیں ہوتی اور نجی اِدارے کہ جہاں افرادی و مالی وسائل محدود ہوتے ہیں لیکن دونوں کی کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سرکاری ادارے باوجود کوشش اور نگرانی کے تہہ در تہہ نظام کے باوجود بھی صارفین کی توقعات پر پورا نہیں اُترتے جبکہ نجی ادارے اپنے صارفین کے اطمینان اور تسلی و تشفی کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری اداروں کے انتظامی امور کی نگرانی غیرمتعلقہ افراد کو سونپنے سے وہاں نظم و ضبط اور احتساب کا عمل کمزور ہوتا ہے جبکہ نجی اِداروں میں انتظامی عہدوں پر کم سے کم قابلیت و اہلیت کا بہرصورت لحاظ و پاس رکھا جاتا ہے۔دوسری طرف سرکاری اداروں کی صورتحال مختلف ہے جنہیں عوام کے ٹیکسوں سے ادا کرکے عوامی نمائندوں کے انتخاب کا مقصد قوانین و قواعد میں موجود سقم دور کرنے کے علاؤہ سرکاری اداروں کی خدمات کا معیار بہتر بنانے کے لئے ’مداخلت‘ کرنا ہوتی ہے لیکن اِس مداخلت کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے اور مالی و انتظامی امور میں خرابیاں اِس حد تک سرایت کر چکی ہیں کہ اِداروں کی کارکردگی بھی متاثر دکھائی دیتی ہے‘ جس کی اصلاح کے بغیر ادارہ جاتی اصلاحات کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔