سات دسمبر دوہزارسترہ: ’ہیرٹیج ٹریل منصوبے کا افتتاح کیا گیا جو گورگٹھڑی آرکیالوجیکل کمپلیکس سے گھنٹہ گھر چوک تک ساڑھے چار سو میٹر لمبی سڑک کے دونوں اطراف عمارتوں اور دکانوں کو قدیمی فن تعمیر کا نمونہ اور مذکورہ علاقے میں شہری سہولیات کا معیار بہتر بنانے سے متعلق حکمت ِعملی تھی اور اِس پر لاگت کے ابتدائی تخمینہ جات سے زیادہ یعنی 30 کروڑ (301.5 ملین) روپے خرچ ہوئے چونکہ تعمیراتی منصوبے میں بجلی و گیس اور پانی کے ترسیلی گنجان آباد پشاور کے تجارتی مراکز سے گزرتا تھا جہاں کھدائی اور تعمیراتی کاموں کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں تو اُن کو امدادی رقم دی گئی اور یوں قریب نصف کلومیٹر فاصلے کی ثقافتی راہداری پر کم سے کم پچاس کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اِس کے بعد مرمت و بحالی کے تخمینہ جات لگائے گئے اور صوبائی حکومت سے 5 کروڑ (500 لاکھ) روپے کی خصوصی مالی امداد طلب کی گئی۔ یوں ثقافتی راہداری پشاور کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پانچ کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد بھی اِس بات کی ضمانت کوئی نہیں دیتا کہ اِسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔اندرون شہر کسی ایک بھی ترقیاتی منصوبے پر اِس قدر خطیر رقم خرچ نہیں ہوئی اور نہ ثقافتی راہداری جیسی توجہ کسی دوسرے منصوبے کو دی گئی جو اپنی جگہ کافی ثابت نہیں ہوئی کیونکہ عالمی معیار کے مطابق ترقی تو ہو گئی لیکن اُس کی حفاظت اور قدر دیکھنے میں نہیں آئی۔ ثقافتی راہداری ابتدائی چند ماہ انتہائی خوبصورت حالت میں رہی جبکہ اِس سے ملحقہ علاقوں کے رہائشیوں اور تاجروں نے صفائی ستھرائی سے لیکر سہولیات کی حفاظت تک تعاون بھی کیا لیکن یہ جذبات وقت کے ساتھ تحلیل ہوتے گئے۔ سیاحوں کیلئے سیاحتی راہداری کے مختلف مقامات پر بیٹھنے کے لئے لکڑی کی بنی ہوئی تپائیاں (benches) نصب کی گئیں لیکن جس شہر میں نالے نالیوں پر رکھے ڈھکن چوری ہو جاتے ہوں‘ وہاں بیش قیمت قطار در قطار بجلی کے کھمبے اور لکڑی کے بینچ کیسے محفوظ رہ سکتے تھے۔ وہی ہوا کہ جس کا اندیشہ تھا۔ سب سے پہلے ثقافتی راہداری سے ملحقہ دکانداروں نے تجاوزات قائم کیں۔ اِس کے بعد عام گاڑیوں (ٹریفک) کیلئے ممنوع اور بعدازاں یک طرفہ قرار دیئے جانے سے رہی سہی کسر نکل گئی اور سینکڑوں کی تعداد میں آٹو رکشہ‘ گاڑیاں اور موٹرسائیکلوں کی پارکنگ سے پیدل چلنا تک دشوار ہو گیا۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر مچھلی منڈی‘ کیچڑ اور پانی سے بچ بچا کر گزرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں جن کا واسطہ پڑے۔ ذہن نشین رہے کہ بازار کلاں سے گھنٹہ گھر تک ثقافتی راہداری بنانے کا تصور (آئیڈیا) 6 فروری 2016ء کے روز ’سرحد کنورسیشن نیٹ ورک‘ کے زیراہتمام ”ہماری ثقافت بچاؤ(Save Our Heritage“ کے عنوان سے منعقدہ نشست میں سامنے آیا تھا جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر پشاور سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تاریخی و ثقافتی اہمیت کی حامل عمارتوں و مقامات کے تحفظ کیلئے ’دفعہ 144‘ نافذ کریں۔ یہ مطالبہ اِس لئے اہم تھا کہ کیونکہ پشاور کے تاریخی و ثقافتی عہد و فن تعمیر کی نشانیوں میں سے بھی درجنوں اپنا وجود کھو چکی ہیں۔