پینڈورا پیپرز کا نیا پینڈورا بکس

پینڈورا بکس کی اصطلاح بچپن سے سنتے آئے تھے مگر اس کی کہانی حال ہی میں معلوم ہوئی۔ پینڈورا کسی یونانی خاتون کا نام تھا۔جسے شادی پر بھائی کی طرف سے ایک چھوٹے صندوق کا تحفہ ملا۔ بھائی نے اپنی بہن کو تاکید کی یہ بکس کبھی نہیں کھولنا۔ بہن نے وعدہ کیا کہ اسے بھائی کے ہاتھ کی نشانی سمجھ کر اپنے پاس آخری دم تک محفوظ رکھیں گی اور کبھی نہیں کھولیں گی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد کمرے کی صفائی کے دوران اسے بھائی کا دیاہوا بکس نظر آیا۔ اسے بکس نہ کھولنے سے متعلق بھائی سے کیاہوا وعدہ بھول گیا۔ تجسس سے مجبور ہوکر اس نے جونہی بکس کھولا تو اس میں سے دنیا بھر کی برائیاں، شیطانی کھلونے،بدبختیاں نکلیں اور فضا میں پھیل گئیں۔ بھائی نے اس بکس نے دنیا کی ساری برائیاں بندکردی تھیں تاکہ اس کی بہن ان سے محفوظ رہے۔ اپنی بے صبری کی وجہ سے پینڈورا نے اپنے لئے خرابیوں، برائیوں اور بدبختیوں کے دروازے خود ہی کھول دیئے۔ حال ہی میں دنیاکے 117 ممالک کے 150 میڈیا اداروں سے تعلق رکھنے والے 600 سے زائد صحافیوں نے 2 سال تک تحقیق کے بعد پینڈورا پیپرز کے نام سے سات کھرب ڈالر کے مالیاتی سکینڈل کو بے نقاب کیا ہے۔جس میں دنیا بھر کے 35سابقہ اور موجودہ سربراہان مملکت اور ساڑھے تین سو سیاست دانوں کی بیرون ملک آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ فہرست میں پاکستان کی سات سو سے زائد شخصیات کے نام بھی شامل ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے 44، پیپلز پارٹی کے 21اور حکمران جماعت تحریک انصاف کے 13مرکزی اور صوبائی رہنماؤں کے نام بھی آئے ہیں۔تاہم آف شور کمپنیوں کے بیشتر مالکان سابق افسران، بیوروکریٹس، اورتاجر نکلے۔اس سے پہلے پانامہ لیکس کے نام سے آف شور کمپنیوں کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس میں ساڑھے چار سو پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ اس حوالے سے حوصلہ افزاء ہے کہ ہمارے ملک کے ایک ہزار سے زائد افراد کے مختلف ملکوں میں کاروباری ادارے چل رہے ہیں اور ہزاروں غیر ملکی شہری ان اداروں میں کام کرتے ہیں۔تحقیقی رپورٹ سے بہت سارے لوگوں نے بڑی توقعات وابستہ کررکھی تھیں۔ انہیں امید تھی کہ اپنے سیاسی مخالفین کی ٹانگیں کھینچنے کیلئے رپورٹ میں انہیں اچھا خاصا مواد مل جائے گا مگر بیشتر لوگوں کی امیدوں پر رپورٹ سامنے آنے کے بعد اوس پڑگیا۔اور انہوں نے رپورٹ کو کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف قرار دیا۔ پینڈورا پیپرز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جن لوگوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں وہ منی لانڈرنگ، کرپشن یا چوری کے پیسے سے بنائی ہیں۔ آف شور کمپنی بھی ایک دکان کی طرح ہے۔ اگرکوئی شخص اندرون یا بیرون ملک کوئی دکان کھولتا ہے تو یہ کوئی غیر قانونی کام یا میڈیاکیلئے اہمیت والی خبر نہیں۔ صحافت کی زبان میں اس رپورٹ کو ”کتے نے آدمی کو کاٹا“ کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ جو خبر کے زمرے میں نہیں آتی۔ اگر آدمی کتے کو کاٹتا تو یہ خبر بن سکتی تھی۔ آف شور کمپنیوں کے سورس آف فنڈنگ اور مصارف کی تفصیل جاننے کے لئے شاید کئی تحقیقاتی کمیشن اور کمیٹیاں بٹھائی جائیں گی۔ حکومت پاکستان نے بھی پینڈورا پیپرز میں اپنے لوگوں کی آف شور کمپنیوں کی چھان بین کا فیصلہ کیا ہے اور غیر قانونی کمپنیوں کے مالکان سے باز پرس کی ٹھان لی ہے‘ اور حکومت نے اس مرتبہ مصمم ارادہ کیا ہے کہ تمام ان افراد کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے گی جن کے نام پنڈورا لیکس میں آئے ہیں اور اس سلسلے میں غیر جانبداری سے کام لیا جائے گا حقیقت یہ ہے کہ معاشیاتی مسائل تب ہی حل ہوں گے جب سرمایہ کاری کے حوالے سے ٹھوس قواعد و ضوابط موجود ہوں۔