دنیا بھر میں اپنے دشمنوں کوتنہاکرنے کیلئے ہرحربہ اور اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم کو استعمال کرنے والا امریکہ بھی اب مکافا ت عمل کاشکارہوتادکھائی دے رہاہے عالمی قوتوں کی طرف سے افغان ایشوپرامریکاکو تنہاچھوڑے جانے کے بعد بعد اب ایٹمی آبدوزوں کے تنازعہ پر امریکہ اوریورپی یونین کے درمیان بھی فاصلے بڑھتے جارہے ہیں گذشتہ ماہ امریکہ کی جانب سے آسٹریلیا کو اچانک پیش کش کی گئی کہ امریکہ آسٹریلیا کو وہ آبدوزاور اس کی ٹیکنالوجی دینے کو تیار ہے، جو جوہری توانائی سے چلتی ہیں۔آسٹریلیا نے ایسی ہی آبدوزوں کی دستیابی کیلئے 66 ارب ڈالر کا ایک معاہد ہ فرانس سے پہلے ہی کر رکھا تھا۔ امریکی پیش کش سنتے ہی آسٹریلیا نے فرانس سے کیا جانے والا معاہدہ توڑ دیا۔فرانس اس معاہدہ شکنی پر اتنا بر افروختہ ہوا کہ اس نے امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیر واپس بلا لئے۔ فرانس کی معیشت یونہی ڈانواڈول ہے، اس پر66 ارب ڈالر کا نقصان اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکے جیسا تھا۔ بعد میں جو بائیڈن نے صدر میکرون کو فون پر سمجھانے بجھانے کی کوشش کی جس کے نیتجہ میں فرانس نے امریکہ کے سفیر تو واپس بھیج دیئے، لیکن آسٹریلیا سے سفارتی تعلقات اب تک بحال نہیں کئے ہیں فرانس اور آسٹریلیا کے درمیان آبدوز تنازعہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے، اس حوالے سے معاملے میں مزید پیشرفت ہوئی ہے اور تنازعہ سنگینی کی جانب گامزن ہے یورپی یونین کی طرف سے آسٹریلیاکے ساتھ مذاکرات منسوخی کے اعلان نے بہت کچھ واضح کردیا تھا جس کے بعد فرانس کی ناراضی کو ختم کرنے کیلئے امریکہ اور برطانیہ نے کوششیں شروع کی ہیں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے نئے دفاعی معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ ’اس کا مطلب کسی کو اتحاد سے نکالنا نہیں اور ایسا کچھ نہیں ہوا جس پر کسی کو پریشان ہونا چاہئے خاص طور پر ہمارے فرانسیسی دوستوں کو۔ فرانس نے امریکہ اور آسٹریلیا پر نئے سکیورٹی معاہدے کے حوالے سے پیدا ہوانے والے بحران میں جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا۔برطانیہ، امریکہ اور اور آسٹریلیا کے درمیان طے پانے والے نئے سکیورٹی معاہدے کے تحت امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری ایندھن سے لیس آبدوزیں بنانے اور تعینات کرنے کی صلاحیت کی ٹیکنالوجی فراہم کریں گے۔ فرانس اور امریکہ میں سفارتی تعلقات اس دن قائم ہوئے تھے، جس دن ریاستہائے متحدہ امریکہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ دوستی کبھی ایک دن کے لئے بھی نہیں ٹوٹی تھی۔در اصل کولمبس نے جب امریکہ کو دریافت کیا تھا اس وقت امریکہ میں جو نسل بستی تھی اسے ریڈ انڈین کہا جاتا ہے۔ شروع شروع میں یورپ نے اس خطہ کو ایک پسماندہ اور بے فیض علاقہ تصور کیا تھا۔ یہاں صرف یورپی ممالک سے نکالے ہوئے سماج دشمن عناصر بطور سزا بھیجے جاتے تھے بالکل اسی طرح جیسے انڈومان نکوبار کے جزیرے کو انگریز ہندوستانی مجرموں اور بعد میں مجاہدین آزادی کیلئے بطور سزا استعمال کرتے تھے اور اسے کالا پانی کہتے تھے۔ امریکہ میں ان پروٹسٹنٹ عیسائیوں اور پادریوں بھی بھیج دیا جاتا تھا جو حکومت یا کیتھولک چرچ کی مخالفت کرتے تھے۔ ان میں یورپ کے ہر ملک کے باشندے ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان جلا وطنوں کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ یہ خطہ بے حد زرخیز اور معدنیات سے مالا مال ہے۔ اس کا علم یہاں بسی ہوئی ریڈ انڈین قوم کو بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد ان یورپیوں نے ریڈ انڈین نسل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اس کے بعد یورپ سے جوق در جوق لوگ یہاں آکر بسنے لگے۔ ان میں بڑی تعداد میں فرانسیسی بھی تھے۔ کینیڈا بھی امریکہ کا ہی شمالی حصہ ہے۔ اس کے ایک علاقہ کو اب بھی فرینچ کینیڈا کہا جاتا ہے۔ اتنے پرانے تعلقات کو مالی مفاد نے ایک دن میں جھٹکے سے توڑ دیا۔اس تاریخی پس منظر کو بتانے کی ضرورت اس لئے پڑی تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ ایک عام واقعہ نہیں ہے، جسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا جائے۔ یہ یورپ اور امریکہ کے اتحاد کے خاتمے کا آغاز ہے۔ فرانس کے ساتھ ہونے والی اس دغابازی نے یورپی یونین پر یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکہ ایک ناقابل اعتبار اور خود غرض اتحادی ہے۔ یورپی یونین نے اس مسئلہ پر فرانس کا ساتھ دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ کا اتحاد ٹرمپ کے صدر بنتے ہی متز لزل ہونے لگا تھا۔سرمایہ داری کی بقا اور سوشلسٹ فلسفہ کے خلاف جنگ امریکہ کی ضرورت تھی۔ تمام کے تمام یورپی ممالک اس جنگ میں شریک نہیں تھے۔ ٹرمپ نے بہر حال یہ اصرار کیا کہ افغانستان میں نیٹو ممالک فوجی اخراجات اٹھانے میں ٹال مٹول کرتے ہیں۔آج کے اخراجات کا بار یورپی ممالک برداشت کریں۔ حالانکہ افغانستان پر یلغار امریکہ نے کی تھی۔ نیٹو ممالک میں صرف اس لئے شامل ہوئے تھے کہ نیٹو معاہدے کے مطابق معاہدے میں شامل کسی بھی ملک پر حملہ تمام نیٹو ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔اسی لیے امریکہ کی مدد کے واسطے نیٹو کیلئے اس عسکری کاروائی میں شامل ہونا لازمی تھا۔ افغانستان کی بیس سالہ طویل جنگ میں شامل رہنے کا، برطانیہ جیسے چند ممالک کے علاوہ کسی یورپی ملک کا کوئی سیاسی یا اخلاقی جواز نہیں تھا۔ یورپ اور امریکہ اتحاد میں پڑنے والی دراڑ کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ یورپ میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اسے اب اپنی حفاظت خود کرنی ہوگی۔ امریکہ کی کم ہونے والی معاشی برتری اور افغانستان میں اس کی پسپائی کے پیش نظر اس احساس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔صرف برطانیہ پوری طرح سے امریکہ کے ساتھ ہے۔ برطانیہ یورپی یونین سے نکل چکا ہے اور اس کیلئے یورپی یونین نے اسے معاف نہیں کیا ہے۔ اس طرح تمام یورپی ممالک میں بھی پوری طرح اتحاد باقی نہیں رہا ہے۔ اس اتحاد کے بکھرنے کا سب سے بڑا سبب امریکہ کا معاشی زوال اور چین کا معاشی عروج ہے۔ دنیا بڑی تیزی سے پھرسے دوبلاکوں میں بٹ رہی ہے۔ ایک بلاک امریکہ کا ہے، دوسرا بلاک چین کا ہے۔ امریکہ نے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرنا کم کر دیا ہے۔چین نے دو سرے ممالک میں سرمایہ کاری میں اضافہ شروع کردیاہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ امریکہ جس ملک میں داخل ہوتا ہے ٹینک پر بیٹھ کر داخل ہوتا ہے اور یہ ٹینک بنی بنائی چیزیں مسمار کرتا ہے، جب کہ چین جس ملک میں جاتا ہے بلڈوزر پر بیٹھ کر جاتا ہے اور بلڈوز تعمیر کے کام میں استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیاء اور افریقہ کے ممالک تیزی سے چین کے بلاک میں داخل ہو رہے ہیں۔ چین جس ملک کی مدد کرتا ہے اس پر اپنا کوئی سیاسی نظریہ نہیں تھوپتا۔ نہ ہی کسی ملک کے سیاسی نظام میں دخل اندازی کرتا ہے۔ یورپ کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ چین پر کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ضرور ہے، لیکن یہ مارکس والا کمیونزم نہیں ہے۔ اس کی شکل بالکل بدل چکی ہے اور اس بدلی ہوئی شکل سے یورپ بالکل خائف نہیں ہے۔ یورپ کی معیشت کورونا کی لہروں میں بہہ گئی ہے۔ مغربی جرمنی جیسی مضبوط معیشت والے ملک بھی لڑکھڑا رہے ہیں۔ اٹلی اور اسپین کی معیشت تو بالکل تباہ ہو چکی ہے۔ ان ممالک میں اگر چین نے سرمایہ کاری نہ کر رکھی ہوتی تو ان ممالک کا وہی حال ہوتا جو جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔ کئی دوسرے یورپی ممالک بھی چین کی سرمایہ کاری قبول کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس تمام عمل میں یورپ میں امریکہ کا زور گھٹتا اورچین کا زور بڑھتا جائے گا عالمی ماہرین ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی چین کی صدی ہوگی اگلے چند برسوں میں یورپ امریکہ سے دور اور چین سے قریب تر ہو جائے گا۔ اس لئے یورپ اور امریکہ کا اتحاد اور زیادہ متاثر ہوگا چین نے ایک طرف اگر سی پیک کے ذریعہ پاکستانی سمندروں کو تجارتی راہداریوں کے طور پر استعمال کرنے میں کامیابی کے ساتھ پیشرفت کی ہے تو دوسری طرف اب افغانستان میں بھی حالات کاپلڑا اپنے حق میں کرنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف ہے سی پیک کی کامیابی اور اس کے منصوبوں کی تکمیل کے بعد اگرافغانستان میں امن برقراررہتاہے تو آنے والے دنوں میں افغانستان بھی سی پیک کاحصہ بن جائے گا جس سے پھر وسط ایشیا تک پاکستان کی رسائی بھی ممکن ہوسکے گی۔