نومبر میں بلدیاتی انتخابات کی تیاری

الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوامیں نومبر میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے 14اکتوبر کو اہم اجلاس طلب کرلیا ہے۔اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے مرحلہ وار انعقاد کا مکمل شیڈول الیکشن کمیشن کے اجلاس میں پیش کرے تاکہ ان انتخابات کیلئے بروقت تیاریاں مکمل کی جاسکیں۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کیلئے انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی کا بھی فیصلہ کر لیااور عام انتخابات کے انعقاد سے قبل تمام ضروری انتظامات کی بروقت تکمیل کو بھی یقینی بنانے کا حکم دے دیا، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کیلئے نئی حلقہ بندی حکومت کی طرف سے شائع شدہ آبادی کے اعدادوشمار کو سامنے رکھ کرازسرنو کی جائے گی۔الیکشن کمیشن نے دیگر صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے کا انتظار کئے بغیر فوری طور پر آئندہ بلدیاتی انتخابات کی مرحلہ وار ترتیب اور اضلاع کی تفصیل مہیا کی جائے۔خیبر پختونخوا حکومت نے پہلے ہی اعلان کیاتھا کہ وہ رواں سال نومبر اور دسمبر میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کروانے کیلئے تیار ہے۔ پہلے مرحلے میں صوبے کے میدانی علاقوں میں انتخابات ہونگے۔اگر حکومت 20نومبر کے بعد انتخابات کرانا چاہتی ہے تو حکومت کے پاس صرف ڈیڑھ مہینے کی مہلت باقی ہیں۔الیکشن شیڈول کا اعلان ہونا ہے۔ امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جاری کئے جائیں گے۔ان کی وصولی اور جانچ پڑتال ہوگی، حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔ امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ ہوں گے اور انتخابی مہم چلانے کیلئے بھی کم از کم دو ہفتوں کی مہلت درکار ہوگی۔ اس سارے عمل کیلئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ بہت کم ہے۔اس سلسلے میں حالیہ اجلاس کے فیصلے قابل ذکر ہیں جن کے مطابق پہلے مرحلے میں ویلج کونسل اور نیٹر ہڈ کے جبکہ دوسرے مرحلے میں تحصیل کونسلز کے انتخابات ہونگے صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش نے میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ کابینہ کمیٹی الیکشن کمیشن کے ساتھ عنقریب ایک اجلاس میں اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرے گی جس کا جلدی باقاعدہ اعلان کر دیا جائیگا۔ صوبائی حکومت کورونا کی وباء کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات اگلے سال مارچ میں کرانا چاہتی تھی تاہم الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور انتخابات ہر صورت میں اسی سال کرانے کی ہدایت کی۔بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں نچلی سطح پر عوامی مسائل گذشتہ دو سالوں سے جوں کے توں ہیں۔جن میں گلیوں کی پختگی، نالیوں کی تعمیر، صفائی کے انتظامات، بجلی، گیس سے متعلق چھوٹے چھوٹے مسائل، اسناد کی تصدیق وغیرہ شامل ہیں۔ ان کاموں کیلئے لوگ ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹرز کے پیچھے جانے سے قاصر ہیں اور ان سے ملاقات بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک اہم قومی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک آئینی تقاضا بھی ہے۔ تاہم عجلت میں ادھورے اور غلط فیصلے کرنے سے بہتر ہوگا کہ بلدیاتی انتخابات نومبر کے بجائے میدانی علاقوں میں دسمبر اور پہاڑی علاقوں میں مارچ میں کرائے جائیں تاکہ اداروں اور امیدواروں کو تیاری کا مناسب موقع مل سکے۔اس عرصے میں حکومت کو بھی نئے بلدیاتی ڈھانچے کی نوک پلک درست کرنے کا بھی موقع ملے گا۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری نظام کمزور ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں بلدیاتی انتخابات کو جمہوری حکومتوں کی سرپرستی حاصل نہیں رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلدیاتی نظام کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے تاکہ عوام کو خدمات کی فراہمی میں تسلسل برقرار رہے۔