اصلاح طلب: امتحاں در امتحاں 

نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT) کے کل 210میں سے 65 فیصد نمبر حاصل کرنا ”امتحانی کامیابی“ کے لازم ہیں۔ ساڑھے تین گھنٹے دورانئے کے اِس سالانہ امتحان کا آغاز سال 1998ء میں ہوا اور تب سے اِس کے بارے میں طلبا و طالبات‘ اساتذہ‘ نجی تعلیمی ادارے‘ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیمیں‘ سیاسی جماعتیں اور ماہرین تعلیم تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ ’ایم ڈی کیٹ‘ شروع کرنے کا مقصد امتحانی بورڈز کی زیرنگرانی ہونے والے امتحانات میں نقل کا مستقل رجحان تھا‘ جس کی اصلاح کرنے کی بجائے ایک نئے امتحانی مرحلہ کا اضافہ کر دیا گیا اور اب جبکہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کے امتحان سے متعلق شکایات اور نتائج کے بارے تکنیکی اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں تو کیا ’ایم ڈی کیٹ‘ کی اصلاح کرنے کی بجائے طب (میڈیکل و ڈینٹل) داخلوں کیلئے ایک  اور امتحان مسلط کیا جائے گا؟سرکاری و نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلے کیلئے ”اِمتحاں در اِمتحاں“ کے مراحل اِصلاح طلب ہیں کیونکہ اِن کی وجہ سے طلبا و طالبات شدید دباؤ میں ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں ایسے طلبہ کہ جن کے تمام تعلیمی عرصے میں پہلی پوزیشن رہیں لیکن ’ایم ڈی کیٹ‘ میں پینسٹھ فیصدی نمبر حاصل کرنے جیسے معیار پر پورا نہ اُتر سکے اور ایسے طلبہ کے لئے سوائے اِس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنا ایک سال ضائع کرکے آئندہ برس دوبارہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کے مرحلے سے گزریں کیونکہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کا ثانوی (سپلمنٹری) امتحان نہیں ہوتا اور اِس کے پرچہ جات کی جانچ پڑتال بھی نہیں ہوتی۔ایم ڈی کیٹ میں ناکام طلبہ کا مطالبہ ہے کہ آئندہ برس تک انتظار کی بجائے فوری طور پر امتحان دوبارہ لیا جائے اور اِس مرتبہ امتحان فزیکل ہونا چاہئے کمپیوٹروں کی مدد سے نہ لیا جائے تاکہ حل کردہ پرچوں کی جانچ پڑتال (نظرثانی) کی جا سکے جبکہ تیسرا مطالبہ ایم ڈی کیٹ امتحان ماضی کی طرح ایک ہی دن لینے سے متعلق ہے اور اِن تینوں مطالبات کے جواب میں طب کی تعلیم کے وفاقی نگران اِدارے ’پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)‘ نے ’نیشنل میڈیکل اتھارٹی (این ایم اے)‘ سے رابطہ کیا ہے تاکہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کے طریقہئ امتحان‘ پرچہ جات و نتائج پر نظرثانی کی جائے کیونکہ اِن سے متعلق طلبہ نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اصولاً ’ایم ڈی کیٹ‘ کے پرچہ جات‘ طریقہئ امتحان اور نتائج سے متعلق تحقیقات کیلئے کسی ایسے حکومتی ادارے کو نگران مقرر کرنا چاہئے تھا جس کا اِس شعبے سے مراسم یا قواعد و ضوابط متعلقہ نہ ہوتے اور اِن میں نجی طلبہ کے نمائندوں‘ نجی تعلیمی اداروں اور ماہرین کی نمائندگی بھی ہونی چاہئے تھی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ بہرحال ’ایم ڈی کیٹ‘ سے متعلق جملہ امور و معاملات کی چھان بین کیلئے ’قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد‘ کو ذمہ داری سونپی گئی ہے جو تحقیقات کے ذریعے کسی ایسے نتیجے پر پہنچے گی جس سے طلبہ‘ والدین‘ نجی ادارے اور اساتذہ مطمئن ہو سکیں۔ اگر امتحانی طریقہئ کار میں تبدیلی اور اِس سے متعلق فیصلہ سازی کے مراحل ہی میں کسی تعلیمی ادارے کی نگرانی اور تجربے سے استفادے کو ضروری (لازم) سمجھ لیا جاتا تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی کہ امتحان کا امتحان لینا پڑ گیا ہے! پاکستان میں طب کی تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں کی غیرسنجیدگی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف امتحانی مراحل اور نتائج کے بارے میں تحقیقات پر اتفاق کیا گیا ہے تو دوسری طرف پاکستان میڈیکل کمیشن کے سربراہ کہ جن کی زیرنگرانی ’ایم ڈی کیٹ‘ کا مرحلہ مکمل ہوا اُن کی منظوری و مشاورت سے تحقیقاتی رپورٹ جاری کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں وضع کردہ اصول یہ ہیں کہ وہ سبھی سوالات جو ایم ڈی کیٹ امتحان کے مقررہ نصاب کے علاوہ داخل ہوئے اُنہیں امتحان سے خارج تصور کیا جائے گا اور جن طلبہ نے اُن  کے جوابات دیئے ہیں اُنہیں مساوی نمبر دیئے جائیں۔ یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ جب یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ چند سوالات نصاب کے علاوہ اسباق سے پوچھے گئے تو آخر ایسا کیوں ہوا؟ مرحلہئ فکر کسی ایک امتحانی مرحلے کی اصلاح کا نہیں بلکہ اُس پورے نظام (انتظامی و مالیاتی بندوبست)پر نظرثانی کرنے کی ہے‘ جو پاکستان میں طب کی تعلیم کا نگران اور فیصلہ ساز ہے۔ ادارے عوام کیلئے سہولیات کی فراہمی اور معیار و اہلیت کسوٹی (پیمانے) کو بہرصورت ممکن بنانے اور اِسے بہتر سے بہتر بنانے کیلئے تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ اِن اداروں کے فیصلہ سازوں کو تنخواہیں اور اِن سمیت پسماندگان کو بھی آخری دم تک مراعات اِسی لئے دی جاتی ہیں کیونکہ وہ اپنی ذہانت و تجربے سے قومی اداروں کو بلند کرتے ہیں‘ اُنہیں مثالی بناتے ہیں۔