”میرے کچھ مخالفین نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے،کوئی ایسا دوست نہیں جو میری مدد کرے اور مجھے اپنے دشمنوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائے، سر جی آپ میرے لئے دعا کریں“ اس طرح کے پیغامات نہ جانے کب سے مجھے ذرا ذرا سے وقفے سے کچھ نوجوان دوستوں کی طرف سے ملتے رہتے ہیں، تفصیل پوچھتا ہوں تو یہی بتایا جاتا ہے کہ میں ہفتہ دس دن سے ایک پل بھی نہیں سو پایا ہوں، کبھی سر میں شدید درد ہوتا ہے کبھی پورے بدن پر عجیب طرح کے دھبے پڑ جاتے ہیں، کھانا کھاتا ہوں تو ذائقہ کڑوا لگتا ہے، میں کہتا ہوں کسی اچھے معالج کے پاس چلے جاؤ تو جواب ملتا ہے سر جی یہ ڈاکٹر صاحبان کے بس کی بات نہیں مجھے پر میرا برا چاہنے والے کچھ حاسدوں نے ”کچھ کر رکھا ہے“ یہ کچھ کیا ہے اس کا ان کو علم نہیں ہو تا۔ پھر یہ سلسلہ کوئی ایک دو لوگوں تک محدود نہیں گزشتہ دو تین دہائیوں میں کئی دوست اس طرح کی صورت حال کا شکار ہوئے کچھ کے اس ڈیپریشن کا دورانیہ بہت کم تھا اور وہ جلد ہی چند بار کی کونسلنگ سے ہی زندگی کی طرف آ گئے لیکن کچھ دوست خصوصاً جو دوست کسی طور مجھ سے یا خود سے تعاون کرنے پر تیار نہ تھے ان کی ڈیپریشن کئی برسوں تک پھیل گئی، کچھ دوست ایسے بھی میرے پاس آئے جن کو ان جانے اندیشوں نے گھیر رکھا تھا مجھے یاد ہے جب میں کوہاٹ روڈ کی سر کاری کالونی گلشن رحمان میں رہتا تھا تو ایک دن بہت رات گئے میرے دوست جہانزیب جابر ایک صوبائی وزیر کو ساتھ لائے تھے۔موصوف دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور ان کو فکر یہ تھی کہ میری یہ دوسری شادی میرے سیاسی کیرئیر پر اثر انداز تو نہیں ہو گی۔ گویا کچھ خود ساختہ مسائل بھی جان کا روگ بن جاتے ہیں اور ڈیپریشن اور شیزو فرینیا کا شکار ہو جاتے ہیں شہر میں ماہر ذہنی امراض اور ایک خوبصورت درمند دل رکھنی والی شخصیت ڈاکٹر خالد مفتی کا دم غنیمت ہے کہ جب بھی مجھے کسی ایسی صورت حال کا علم ہوتا ہے تو اس دوست کو ان سے ملنے کا کہتا ہوں اوروہ جلدی ٹھیک بھی ہو جاتا ہے۔ ایک دو بار کوہاٹ روڈ پر دوست عزیز ڈاکٹر عرفان کے پاس بھی ایک دو بچوں کو بھیجا بفضل ِ ایزدی اور ان کی توجہ سے وہ ٹھیک ہو گئے، ویسے تو اس طرح کی نا آسودہ رکھنے والی بیماری کاعمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن پھر بھی نوجوان اس کا شکار زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ جوانی کے پر جوش دن امنگوں،آرزوؤں اور خواب دیکھنے کے دن ہو تے ہیں، اور جب خوابوں کو تعبیر نہیں ملتی اور آرزوؤں کے حصول میں مشکلات پیش آتی ہیں تو ذہنی دباؤ اور پریشانیوں میں اضافہ ہو تا ہے پھر یہ وہی عمر ہے جس کے بارے میں نشور واحدی نے کہا ہے
کوئی آج تک نہ سمجھا یہ شباب ہے توکیا ہے
یہی عمر جاگنے کی یہی نیند کا زمانہ
راتوں کو جاگنے کی کئی وجوہات ماہرین بتاتے ہیں،کبھی اس طرح کی بے خوابی کا شکار لوگ اختر شماری میں رات گزار دیا کرتے تھے مگر یہ وہ زمانہ تھا جب کھلے میں یا گھروں کی چھت پر سونے کا رواج تھا اس لئے تارے گننے کے سوا اور کوئی شغل نہیں ہو تا تھا، مگر اب پہلے پہل ہوائی فائرنگ کے خوف نے چھتوں پر اور کھلے میں سونے کی عادت چھڑا دی۔شعر و ادب سے جڑے لوگ کتابوں میں پناہ لینے لگے اور اگر پھر بھی حرف و لفظ کے قبیلے کا بندہ چھت پر سوتا ہے تو داغستان کے شاعر رسول حمزہ توف نے ان کے حق میں یہ بیان جاری کر دیا کہ ”اگر کوئی شاعر اپنے گھر کی چھت پر لیٹ کر آسمان کو دیکھ رہا ہے تو (اس کو مت چھیڑیئے) کیونکہ وہ کا م کر رہا ہے۔“ اور اب تو خیر سے ”ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ“ اور کسی کو بھی از حد مصروف رکھنے والی ننھی سی ڈیوائس سیل فون نے بھی تاروں کے گننے کے بے سود عمل سے جان چھڑا دی، لمبی رات لمبی بات قسم کے پیکج نے بھی بہت سے دلدر دور کر دیئے اور یار لوگ رات کا بے تابی سے انتظار سونے کے لئے نہیں جا گنے کے لئے کرنے لگے۔پھر لکھنؤ کے عرفان صدیقی نے ان کی یہ ڈھارس بھی بندھائی، کہ
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لئے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لئے
اور جاگتی آنکھوں کے دیکھے ہوئے خواب دیکھنے والے فوری تعبیر حاصل کرنے کے تمنائی ہوتے ہیں، جو فی زمانہ مشکل ہی ناممکن بھی ہے۔ اس لئے ذہنی صحت کے مسائل بڑھنے لگے اور ایک رپورٹ کے مطابق ایسے مریضوں کی تعداد اب لگ بھگ نصف ارب افراد تک پہنچ چکی ہے، اور مزید اضافہ بھی متوقع ہے، کہیں نہ کہیں ہمارا اپنے آپ سے مکالمہ بھی رکا ہوا ہے، ویسے دوسروں سے تو ہم بہت بو لتے ہیں مگر اپنے ساتھ ہماری دوستی اب نہیں رہی۔ مثبت گفتگو ہم نہیں کرتے، ہمارے ذہنی تناؤ میں کچھ اضافہ تو کچھ کچھ سمجھ میں آنے اور بہت کچھ سمجھ میں نہ آنے والی غیر یقینی صورت حال سے ہو رہا ہے،ایک طرف ہم نے دینی تعلیمات سے بھی نظریں پھیر لی ہیں اور پھر کوڈ نے پوری دنیا کو جس طرح پچھاڑ کر رکھ دیا ہے وہ بھی اپنی جگہ ایک سنگین تجربہ ہے، اس لئے ڈیپریشن اور شیزو فرینیا جیسی نفسیاتی بیماریوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے، مایوس اور شکی مزاج لوگ پہلے کسی بھی معاشرے میں خال ہی خال نظرآتے تھے، مگر اب تو شاید ہی کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکے کہ وہ ان بیماریوں کا شکار نہیں ہے اس لئے اس گھمبیر صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے ذہنی صحت کی تشخیص اور آگاہی کے لئے عالمی ادارہ صحت نے ہر سال دس اکتوبرکو یوم ذہنی صحت (ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے) قرار دیا ہے۔ اس وقت دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں جسمانی یا ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی دوا نہ استعمال کی جارہی ہو۔ ہمارے سرہانے جہاں کبھی کتابیں ہوتی تھی وہاں اب میڈیسن کے ڈبے پڑے ہیں، اور ان ادویات کی تعداد بھی اب بڑھتی جا رہی ہے جو معالجین ”عمر بھر استعمال“ کا مشورے دیتے ہیں، خصوصاً ذہنی تناؤ کرنے والی مسکن ادویات تو جیسے اب سانس لینے کی طرح نا گزیر ہو چکی ہیں۔گویا
ساقی خزاں قریب ہے اتنی پلا مجھے
کھویا رہوں میں آ مد ِ فصل ِ بہار تک