خیبر پختونخوا کابینہ نے ”لینڈیوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایکٹ 2021“کی منظوری دے دی ہے جوپاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی اور اہم قانون سازی ہے۔اس قانون کے تحت صوبے کے چھ بڑے شہروں کی لینڈ یوزپلاننگ کا عمل مکمل کیاگیا ہے جبکہ 20 شہروں کے ماسٹر پلان کی تیاری آخری مراحل میں ہے اس قانون سازی سے شہری علاقوں کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روکنے اور زرعی زمینوں کی حفاظت کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ خیبرپختونخوا پہلا صوبہ ہے جس میں اراضی کے صحیح استعمال اور شہروں کو منصوبہ بندی کے تحت بسانے کے لئے ایک باقاعدہ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیاہے اس قانون کے تحت زرخیز زرعی زمینوں کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال سے روکا جا سکے گا اور بین الاقوامی معیار کے مطابق شہری منصوبہ بندی یقینی بنائی جاسکے گی۔ صوبائی کابینہ نے وقف پرا پرٹی کے انتظام و انصرام کے لئے خیبر پختونخوا وقف پراپرٹیز ترمیمی ایکٹ 2021کی بھی منظوری دی جس سے وقف پراپرٹی کی اونے پونے داموں لیز اور اس کی تو سیع کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ محکمہ اوقاف نے اب تک صوبے میں چارہزار کنال اوقاف پراپرٹی قابضین سے واگزار کرائی ہے جس سے پانچ ارب روپے سے زائد ریونیو صوبے کو حاصل ہوا ہے، ترمیمی ایکٹ کی اسمبلی سے منظوری کے بعد صوبے کو اربوں روپے کی آمدن ہوگی اورلیز کے تمام مراحل کے لئے ایک شفاف طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔
کابینہ نے فاٹا کے لیویز کو ملازمت پر بحال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔کابینہ نے تجاوزات کے خاتمے کے ترمیمی ایکٹ کی بھی منظوری دی۔پاکستان میں آبادی سالانہ 2.58فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے جو جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ دیہی علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد تعلیم، علاج اور روزگار کیلئے شہروں کا رخ کر رہی ہے۔ آج پشاور کی آبادی چالیس سے پنتالیس لاکھ کے درمیان ہے اور 85فیصد آبادی دیہی علاقوں سے آئے ہوئے خاندانوں اور افغان مہاجرین پر مشتمل ہے۔ آبادی میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے شہریوں کو تعلیم، علاج، روزگار، رہائش اور شہری سہولیات کی مناسب سہولیات کی فراہمی بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ پشاور کسی زمانے میں فصیل شہر کے اندر بسا ہوا ایک خوشحال شہر ہوا کرتا تھا۔ اب اندرون شہر کا علاقہ ایک محلے کی صورت اختیار کرگیا ہے اور پشاور کی آبادی نوشہرہ، چارسدہ اور خیبر تک پھیل گئی ہے۔ رہائش کے مسائل کے پیش نظر نئی ٹاؤن شپس اور کالونیاں بن رہی ہیں اور زرعی اراضی روزبروز سکڑتی جارہی ہے۔ آبادی اور تعمیرات کے اس بے ہنگم سلسلے کو نہ روکا گیا تو پشاور کے گردو نواح میں رہے سہے باغات اور زرخیز اراضی کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوگا۔ صوبائی حکومت کی طرف سے لینڈ یوز اتھارٹی کا قیام وقت کی اہم ضرورت تھی۔توقع ہے کہ صوبائی حکومت اتھارٹی کے لئے قواعد و ضوابط بھی جلد وضع کرے گی اور ان پر سختی سے عمل درآمد بھی یقینی بنائے گی۔بلندعمارتوں اور پلازوں کی تعمیر کے رجحان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ کم سے کم رقبے پر کثیر منزلہ عمارت تعمیر کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رہائش کی سہولت فراہم کی جاسکے۔