ایک دورتھا کہ جب ہر کوئی اپنی زبان پر فخر کیاکرتاتھا زبان کی حفاظت کی جاتی تھی یعنی اپنی بولی کو دیگر زبانوں اوربولیوں کی ملاوٹ سے محفوظ رکھاجاتاتھا،لہجہ اورتلفظ کاخیال رکھا جاتاتھا،ہمارے پاس اگر زبانیں مکمل صورت میں پہنچی ہیں تو ان میں ان زبانوں کے بولنے والوں اور ان کے چاہنے والوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا تاہم جوں جوں ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی تو دیگر قباحتوں کیساتھ ساتھ ایک بڑی قباحت یہ بھی سامنے آنے لگی ہے کہ تہذیب کی طرح زبانیں بھی اپناخالص پن کھونے لگی ہیں پہلے پہل تو ریڈیو اورٹی وی نے اپنا کردار ادا کیا اب ان سے بھی بڑھ کر سوشل میڈیا اپناکرداراداکرنے میں مصروف ہے،دْنیا میں ہر چیز ایک توازن اور اعتدال کے ساتھ استعمال کی جائے تو فائدہ پہنچاتی ہے، حد اعتدال ملحوظ نہ رکھی گئی تو اس کا نقصان ہے خواہ وہ طاقت بخش غذا ہی کیوں نہ ہو۔ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی دْنیا حیرت انگیز فوائد کی دْنیا ہے مگر اس کا غلط استعمال کیا جائے تو یہ نہایت نقصان دہ ہے جس کا مشاہدہ عام ہے ٹیکنالوجی کی دین سوشل میڈیا جو نہایت مختصر مدت میں کسی جادو کی طرح سر چڑھ کر بولنے لگا ہے، علم و حکمت کے بہت سے شعبوں کیلئے فائدہ مند ہے کیونکہ اس کے ذریعہ صارفین تک کارآمد چیزیں بھی پہنچتی ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ زبانوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ انٹرنیٹ زبانوں کی تدریس کیلئے بھی نہایت کارگر ہے۔ کئی زبانیں بڑی سہولت کے ساتھ آن لائن سیکھی جاسکتی ہیں۔وہ زبانیں جو ہم جانتے ہیں انہیں مزید سیکھنے، زباندانی کا معیار بہتر بنانے اور نت نئے الفاظ سے روشناس ہونے کیلئے بھی اس سے مدد ملتی ہے۔ یہ بہت بڑا فائدہ ہے۔ کئی ویب سائٹس پر مختلف زبانوں کے الفاظ روزانہ صارفین کے سامنے ایسے پیش کئے جاتے ہیں جیسے دسترخوان پر پکوان سجائے جاتے ہیں۔ کئی ویب سائٹس صرف و نحو اور گرائمر سکھاتی ہیں۔ اعلیٰ درجہ کے ادب تک رسائی کو آسان بنانے والی سائٹس بھی ہیں۔ مگر اسی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کا ایک رْخ یہ ہے کہ آج نئی نسل جو زبان سوشل میڈیا پر استعمال کررہی ہے یا جس کی عادی ہوتی جارہی ہے وہ تین چار زبانوں کا مجموعہ ہے۔ یہ مخلوط زبان کسی بھی (ایک) زبان کے فروغ میں معاون نہیں ہوسکتی کیونکہ نئی نسل کو ان میں سے کسی بھی زبان سے کوئی اْنس نہیں ہے۔ نئے لڑکوں، لڑکیوں کو ترسیل و ابلاغ سے سروکار ہے، زبان سے نہیں۔ اْن کے نزدیک جو کہا جارہا ہے اگر باآسانی اس کی ترسیل ہورہی ہے تو اتنا کافی ہے۔ اس مخلوط زبان میں تھوڑی انگریزی، تھوڑی اْردو اور تھوڑی کوئی مقامی زبان یا بولی ہوتی ہے جو نہ انگریزی کیلئے کوئی اچھی علامت ہے نہ ہی دیگر متعلقہ زبانوں کیلئے۔ جب یہ زبان کش رجحان عام ہوگا تو درس گاہوں میں زبانوں کی تدریس کا کوئی خاص مفہوم باقی نہیں رہے گا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو گھروں میں بھی تاکید کی جائے اور کلاس رومزمیں بھی سمجھایا جائے کہ زبان کا بہتر استعمال کیا ہوتا ہے اور اس کے کیا فوائد ہیں۔ اْنہیں بتایا جائے کہ زبان دانی کو سائنس، جغرافیہ، معاشیات، تاریخ اور دیگر مضامین کی طرح محض ایک مضمون نہ سمجھا جائے کیونکہ زبانوں کی تدریس کے ذریعہ طالب علم تہذیب سیکھ رہا ہوتا ہے اور تہذیب وہ شے ہے کہ کسی بھی مضمون میں مہارت حاصل کرلینے کے باوجود اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی یا اس کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ طلبہ کو زبان سکھانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اْن میں زبان کی محبت اور زبان پر فخر کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ یہ فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا جائے تو زبان کی تدریس بھی آسان ہوجائیگی اور ترویج و ترقی بھی کیونکہ اس کی حفاظت کیلئے نئی پود سرگرم عمل ہوگی۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے بشرطیکہ اساتذہ اپنے اپنے طور پر حکمت عملی تیار کریں اور اپنے طلبہ کو سمجھائیں کہ زبان کیا ہوتی ہے، ادب کیا ہوتا ہے، انکا تحفظ کیوں ضروری ہے اور ان سے بے اعتنائی کتنے بڑے علمی، ادبی اور تہذیبی نقصان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔زبانوں سے بے پروائی کا مسئلہ ہر جگہ پایا جارہا ہے، ایسے میں تھوڑی سی فکر کرلی جائے تو ہم اس بے پروائی کے نقصان سے بچ سکتے ہیں بدقسمتی سے ہم تو ابھی تک قومی زبان کو ہی اس کااصل مقام دینے میں ناکام رہے ہیں ایک اردوزبان ہی ایسی ہے جو پورے ملک میں بولی اورسمجھی جاتی ہے ملک کے کسی بھی حصہ میں جائیں کسی نہ کسی حد تک لوگ اردو سے واقف ہوتے ہیں قومی زبان نہ سہی رابطہ کی قومی زبان کی حیثیت سے ہی اسے اس کااصل مقام دیاجاتا تو آج بہت سے مسائل شاید اس طرح منہ کھولے دکھائی نہیں دیتے جو اس وقت ہماری پریشانی کاباعث بن رہے ہیں پھر اگر علاقائی زبانوں کی بات کی جائے تو ان کاتو خدا ہی حافظ ہے سو ٹیکنالوجی کے اس دور میں زبانوں کی تدریس کے ذریعہ ہی نئی نسل کو اپنی زبانوں کی ترویج کے لئے تیار کیاجاسکتاہے اور اس سلسلہ میں اب اساتذہ ہی کو کردار ادا کرناہوگا۔