محسن ِپاکستان

پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 9 ممالک میں ہوتا جن کے پاس جوہری صلاحیت اور جوہری ہتھیار ہیں۔ پاکستان کا جوہری پروگرام 1972ء میں ملک کے 9ویں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو (پیدائش 5جنوری 1928ء۔ وفات 4 اپریل 1979ء) نے شروع کیا۔ آپ 1971ء سے 1973ء ملک کے چوتھے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی رہے جبکہ بطور 1973ء سے 1977ء کے درمیانی عرصے آپ ملک کے وزیراعظم رہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے 30 نومبر 1967ء (53 سال قبل) سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی‘ جو بائیں بازو کی سماجی جمہوری جدوجہد کرتے ہوئے ”روٹی کپڑا اور مکان“ کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا اور یہ سیاسی جماعت ’آج بھی بھٹو زندہ ہے‘ کے نعرے سے ایک خاص سوچ کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ اگر 51 سالہ ذوالفقار علی بھٹو کو (4 اپریل 1979ء) پھانسی نہ دی جاتی تو پاکستان عالم اسلام کا مرکز اور مسلم اُمہ کو یکجا کرتے ہوئے اِس کے دفاع و ترقی کا ضامن ہوتا۔ بہرحال جوہری پروگرام کی بنیاد رکھتے ہوئے ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘ کے سربراہی منیر خان کو سونپی گئی‘ جنہیں 1976ء تک جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا ہدف دیا گیا لیکن جب وہ یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء کے آخر میں نیوکلیئر فزکسٹ اور میٹلرجیکل انجنیئر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قائل کیا کہ وہ یورپ (ہالینڈ) سے پاکستان آئیں تاکہ پاکستان اپنی جوہری صلاحیت کو جوہری ہتھیاروں میں تبدیل کرنے کا ہدف حاصل کر سکے۔ ڈاکٹر قدیر خان کیلئے ”کہوٹہ پراجیکٹ“ تخلیق کیا گیا جس نے 1984ء میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری مکمل کر لی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام باضابطہ طور پر 20 جنوری 1972ء میں شروع ہوا جبکہ جوہری ہتھیار کا پہلا تجربہ 28 مئی 1998ء (چاغی ون) اور دوسرا تجربہ 30 مئی 1998ء (چاغی ٹو) کیا گیا اور جوہری عمل سے حرارت پیدا کرنے والے اِن ’تھرمونیوکلیئر ہتھیاروں‘ کے مذکورہ دونوں تجربات کامیاب رہے۔ جوہری صلاحیت سے متعلق مختلف دستاویزات کے مطالعے سے اِس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ بھارت کے جوہری پروگرام کے ردعمل میں بنایا گیا اور یہ بھارت ہی ہے جس نے جنوب مشرق ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے  ساتھ پاکستان کے جوہری پروگرام اور جوہری عزائم (کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری نامی منصوبے) سے آگاہ دیگر تین اہم حکومتی شخصیات میں اُس وقت کے سیکرٹری خزانہ اے جی این قاضی (وفات 9 اگست 2016ء)‘ سیکرٹری دفاع غلام اسحاق خان (وفات 27 اکتوبر 2006ء) اور سیکرٹری خارجہ امور آغا شاہی (6 ستمبر 2006ء) شامل تھے جو براہ راست ذوالفقار علی بھٹو کو رابطے میں تھے۔ بعدازاں غلام اسحاق خان اور جنرل ٹکا خان نے فوجی انجنیئر میجر جنرل علی نواب کو اِس راز میں شریک کیا جو جنرل ضیا الحق کے دور تک اِس پروگرام سے وابستہ رہے۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری نے یورینیم کی افزودگی کا ہدف اپریل 1978ء میں حاصل کر لیا تھا۔ پاکستان کو جوہری صلاحیت سے مالامال کرنے والے وہ سبھی معلوم اور گمنام کرداروں کی خدمات خراج تحسین کے لائق ہیں جنہوں نے نہ صرف قومی سلامتی سے جڑے ایک نہایت ہی اہم راز کو سنبھالے رکھا بلکہ اپنے لئے گمنامی اور مشکلات کی زندگیاں چن کر پاکستان کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کر گئے ہیں۔پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تاریخ بھارت کی پاکستان دشمنی اور سقوط ڈھاکہ (مشرقی پاکستان کے الگ ہونے) میں بھارت کا کردار رہا ہے اور یہی بنیادی محرک قرار دیا جاتا ہے۔ 1971ء کے مذکورہ سانحہ کے بعد 20 جنوری1972ء ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں ایک اجلاس بلایا جس کا ذکر  ”ملتان میٹنگ“ کے عنوان سے تاریخ کا حصہ ہے۔ بھارت نے 18 مئی 1974ء کے روز پوکھران کے علاقے میں ’مسکراتے بدھا (Smiling Buddha)‘ کے نام سے پہلے جوہری بم کا تجربہ کیا جو اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے 5 مستقل اور جوہری صلاحیت رکھنے والے رکن ممالک کے علاوہ کسی ملک کا پہلا اعلانیہ جوہری تجربہ تھا۔ اِس کے چند ہفتے بعد 28 مئی 1998ء بھارت نے دوسرا جوہری ہتھیاروں کا تجربہ ’آپریشن شکتی‘ کے نام سے کیا جس کا مسکت جواب 5 جوہری بموں کے تجربے (چاغی ون) کی صورت دیا گیا اور اِس کے بعد ’چاغی ٹو‘ نے بھارت سمیت اُن سبھی ممالک کو حیران کر دیا جو پاکستان کے جوہری پروگرام کو ناکام اور ہاتھی کے دانت قرار دے رہے تھے اُور جن کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان بھارت اور دیگر جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک سے زیادہ خطرناک جوہری مادہ تخلیق کر لے گا اور اِس پورے کارہائے نمایاں کا سہرا ’ڈاکٹر عبدالقدیر‘ کی محنت کا نتیجہ تھا جن کا دس اکتوبر دوہزار اکیس کی صبح انتقال ہو گیا۔ اُن کیلئے اِس سے بڑا اعزاز کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ہے کہ قوم اُن کی ذات و خدمات کو ”محسن ِپاکستان“ کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ڈاکٹر قدیر خان نے وصیت کر رکھی تھی کہ اُن کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں اَدا کی جائے۔ حکومت نے اُن کی اِس خواہش کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف نماز جنازہ بلکہ اُن کی تدفین پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ فیصل مسجد کے احاطے میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان چھبیس اگست سے علیل تھے‘ جب اُن میں کورونا وبا کی تشخیص ہوئی تھی اور ایک مرحلے پر اُنہیں اِس قدر تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر اُن کی وفات کی خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں تاہم وہ چند روزہ علاج کے بعد گھر منتقل ہو گئے اور اُن کا آخری ویڈیو پیغام ’11 ستمبر‘ کے روز جاری ہوا تھا جس میں اُنہوں نے اپنی صحت یابی کے دعاؤں کے ساتھ قوم کا شکریہ ادا کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ قوم اُن سے محبت کرتی ہے اور اُن کی قومی خدمات کا تاقیامت اعتراف کیا جائے گا۔