آئی ایم ایف کا ڈومور کا تقاضا

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان سے بجلی اور گیس کی قیمت مزید بڑھانے اور عوام کو بنیادی ضروریات زندگی پر دی جانے والی ہر قسم کی سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ قرض پروگرام بحالی کیلئے جاری ورچوئل مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے حوالے سے پاکستان کومزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں ایک روپے 40 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے بجلی کی قیمت بڑھا کر ہی گردشی قرضوں کے جن کو قابو کیا جاسکتا ہے،پاکستان کو قرضوں کی قسط بحال کرنے کیلئے محصولات کا ہدف 58 کھرب سے بڑھا کر63 کھرب مقرر کرنے کا بھی مطالبہ کیاگیا ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ نجکاری پروگرام کو تیز کیا جائے۔نقصان میں چلنے والی سرکاری کمپنیوں کی نیلامی کا ٹائم فریم عالمی ادارے کوفراہم کیا جائے۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ قرض کے حصول کیلئے حکومت کو طوعاً و کرہاً آئی ایم ایف کے ان احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ابھی بجلی کی قیمت بڑھانے سے متعلق آئی ایم ایف کی شرائط کی صرف صدائے بازگشت ہی سنائی دینے لگی تھی کہ  نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی نے کمال فرمانبرداری سے فیول چارجز ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ بڑھانے کا اعلان کردیا۔ نیپرا کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے قیمت میں 2روپے 7پیسے فی یونٹ بڑھانے کی درخواست کی تھی مگر عوام کے وسیع تر مفاد میں ان کا مطالبہ مسترد کردیا گیا اور صرف  ایک روپے 95پیسے بڑھانے پر اکتفا کیاگیا اور عوام کو 12پیسے کے بھاری مالی نقصان سے بچایاگیا۔نیپرا نے بجلی کے صارفین کو تسلی دی ہے کہ اضافی قیمت کا اطلاق صرف ایک مہینے کیلئے ہوگا اور اکتوبر کے مہینے کے بلوں میں عوام کی جیبوں سے صرف 30 ارب 40 کروڑ روپے نکالے جائیں گے۔ ماضی میں ہر حکومت نے فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کئے اور قوم کی سات نسلوں پر آئی پی پیز کے قرضوں کا بوجھ لاد دیا۔ پانی سے بجلی پیدا کرنے کا خرچہ تین سے چار روپے فی یونٹ پڑتا ہے۔ جبکہ تیل سے بجلی بنانے پر 25روپے فی یونٹ خرچہ آتا ہے۔ آئی پی پیز کو تیل بھی حکومت آئل کمپنیوں سے خود خرید کر فراہم کرتی ہے۔ ایک طرف آئل کمپنیوں اور دوسری طرف آئی پی پیز کے واجبات بڑھتے جارہے ہیں۔بجلی استعمال کرنے والے سرکاری اداروں کے ذمے اربوں روپے کے بقایاجات ہیں۔ ان سے وصولیاں بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔ سارا بوجھ ماہ بہ ماہ باقاعدگی سے بل اداکرنے والے صارفین پر ڈالا جاتا ہے اور عام صارف اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ایک مہینے کا بل ادا نہ کرسکے تو جرمانے کے ساتھ اسے بجلی کاٹنے کی وارننگ بھی دی جاتی ہے۔ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اثر روزمرہ استعمال کی ہر چیز کی قیمت پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کی شرح میں ماہا نہ بنیادوں پر اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت اگر مہنگائی کو واقعی عوام کا مسئلہ سمجھتی ہے تو مہنگائی کی بنیادی وجوہات کا تدارک کرنا ہوگا۔