اصلاحی مراکز

معاشرے سے جرائم کا خاتمہ اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہو سکتا جب تک جیل خانہ جات ”اصلاحی مراکز“ میں تبدیل نہیں کر دیئے جاتے اور اِس سلسلے میں کی جانے والی جملہ کوششوں میں تعلیم و تربیت‘ سلوک و احسان اور انسانی احترام کی خاص اہمیت ہے۔ رواں ہفتے ایبٹ آباد جیل کے چالیس قیدیوں کی سزاؤں میں تخفیف کی گئی کیونکہ اُنہوں نے ناظرہ قرآن شریف اُور قرآن مجید کی آیات کریمہ کا ترجمہ مکمل کیا‘ جس سے بہترین زاد ِراہ‘ تربیت‘ شعور‘ آگہی اور خواندگی کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ جیل خانے میں اِس مثالی و بامقصد اقدام کی مناسب تشہیر کیلئے خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس سے جیل سپرٹینڈنٹ وسیم خان نے قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم و ترجمہ سے متعلق ایک سالہ کورس کی تفصیلات بیان کیں‘ جس کے لئے معروف مذہبی شخصیات نے بطور اساتذہ فی سبیل اللہ تعاون کیا اور ایک ایسا کام ممکن کر دکھایا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تقریب میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا اور اُنہیں ایبٹ آباد جیل میں جاری مختلف فلاحی منصوبوں کے بارے میں بتایا گیا۔ جیل ایک پراسرار جگہ ہوتی ہے جس کی چاردیواری کے اندر بسنے والی دنیا کے بارے وہ لوگ بھی زیادہ تفصیلات نہیں بتاتے‘ جو اِس تجربے سے گزرتے ہیں۔ اِسی طرح جیل میں قرآن مجید کے تدریسی مراحل سے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ کس طرح محدود مالی وسائل کی موجودگی میں جیل انتظامیہ ناممکن فلاحی کام کو ممکن بنایا لیکن ظاہر سی بات ہے کہ جہاں خلوص ِنیت اور کچھ کرنے کا عزم و ارادہ موجود ہو‘ وہاں ہمت اور وسائل میسر آ ہی جاتے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہزارہ کی معروف مذہبی شخصیت مولانا محمود الحسن نے قیدیوں پر زور دیا کہ وہ جیل میں اپنے قیام کے دوران  گناہوں کی معافی مانگیں‘ اپنے ماضی کے معمولات پر غور کریں اور مستقبل کیلئے اُن روشن راستوں کا انتخاب کریں جو دین و دنیا میں کامیابی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ معاشرے کا بہترین و فعال رکن وہی ہوتا ہے جس کے قول و فعل (ہاتھ اور زبان) سے دوسرے خود کو محفوظ تصور کریں۔“اسلام سراپا رحمت و شفقت ہے۔ جس نے عدل واحسان کی تاکید کی ہے اور یہی وہ خاص نکتہ ہے جو اسلام کو دیگر ادیان سے بلند کرتا ہے۔ ظلم وزیادتی‘ ناحق مارپیٹ‘ کسی کو ستانا یا خواہ مخواہ پریشان کرنا اسلام میں جائز نہیں کیونکہ جب انسانیت کی بات ہوگی تو اسلام کی نظر میں مرد و عورت‘ امیر و غریب‘ محتاج و غنی کے حقوق برابر ہوں گے۔ اِسی لئے کسی امیر کو غریب کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی صاحب ِطاقت کو بے کسوں پر طاقت استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جانوروں (جنگلی حیات) سے شفقت اور رحمت کے سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث شریف ہے کہ  گناہ گار عورت نے پیاس سے ہانپتے کتے کو پانی پلایا۔ اللہ نے اِس عمل کی قدرکی اور اُس عورت کو بخش دیا‘ لوگوں نے پوچھا یا رسو ل اللہ! کیا جانوروں کے پانی پلانے سے ہمیں بھی یکساں اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر تر جگر رکھنے والے جان دار کو پانی پلانے میں ثواب ہے۔ جب اسلام میں جانور کے ساتھ اس طرح کے حسن ِسلوک کی اس قدر تاکید ہے تو انسانوں کے ساتھ رحم وکرم کی کیفیت کیا ہو گی۔