محسن ملک و ملت الوداع 

یکم اپریل 1936کو بھارت کے شہر بھوپال کے پٹھان خاندان میں پیدا ہونے والے بچے عبدالقدیر خان کیلئے پاکستان کی آزادی کا دن بہت یادگار تھا۔1951میں اس نے اپنا گھر بار چھوڑکر ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کرلی۔ پندرہ سالہ عبدالقدیرخان جب امرتسر پہنچا تو ایک سکھ سپاہی نے ان کی تلاشی کے دوران جیب میں رکھا ان کا پسندیدہ پارکر قلم مانگ لیا۔اور کہا کہ آپ ایک آزاد ملک جارہے ہیں وہاں اچھی تعلیم حاصل کرو گے بڑا افسر بنو گے اپنے لئے اس سے زیادہ قیمتی قلم لے سکتے ہو۔سکھ سپاہی کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ عبدالقدیر خان بہت بڑے آدمی بن گئے۔اگر یہ کہاجائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ ڈاکٹر قدیر قوم کے غیر متنازعہ ہیرو رہے۔وہ شاید واحد پاکستانی تھے جس سے بائیس کروڑ عوام محبت کرتے تھے۔ 1999میں جلال بابا آڈیٹوریم ایبٹ آباد میں مجھے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو کرنے کی سعادت ملی۔ جس میں انہوں نے پہلی بار میڈیا میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر نے بتایا کہ 1974میں جب بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔اس وقت وہ ہالینڈ کی نیوکلیئر لیبارٹری میں کام کر رہے تھے۔اے کیوخان کا کہنا تھا کہ بھارت کے جوہری دھماکوں کے بعد چار دن تک اس نے کھانا نہیں کھایااور مسلسل روتے رہے، ایک ہفتے تک اسے نیند نہیں آئی۔ بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے پاکستان میں جوہری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا۔انہیں توقع نہیں تھی کہ ان کا خط وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچ پائے گا۔ دو ہفتے بعد جب اسے وزیراعظم پاکستان کا جوابی خط میں ملا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وزیراعظم نے پیش کش کی تھی کہ وہ جس طرح کی سہولیات چاہتے ہیں حکومت ان کی مدد کیلئے تیار ہے۔ خط کے جواب میں انہوں نے وزیراعظم کو دوسرا خط لکھ بھیجا کہ وہ فوری طور پر اگر پاکستان آگئے تو مشکوک ٹھہریں گے۔ چھٹیوں میں پاکستان آکر وزیراعظم نے اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کریں گے۔جب پاکستان پہنچا تو وہ وزیراعظم سے ملنے اور ذوالفقار علی بھٹو ان سے ملنے کیلئے بے تاب تھے۔ ملاقات میں جوہری پروگرام کی تیاریوں کو حتمی شکل دیدی گئی۔ کہوٹہ میں کے آر ایل کے نام سے لیبارٹری قائم کردی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ وہی لیبارٹری ہمارا دفتر بھی تھا اور بیڈ روم بھی تھا۔ کام سے تھک کر وہیں فرش پر پڑے فوم پر دراز ہوجاتے اور نیند سے بیدار ہوکر پھر کام شروع کردیتے۔وزیراعظم نے اس وقت کے گورنر سٹیٹ بینک غلام اسحاق خان کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کو جس چیز کی ضرورت ہو۔ فوری طور پر مہیا کی جائے۔رات کو دو بجے بھی ضرورت پڑنے پر غلام اسحاق خان کو فون کرلیتے اور وہ بلاتاخیر سلیپنگ سوٹ میں ملبوس حاضر ہوجاتے۔ ڈاکٹر اے کیوخان کا کہنا تھا کہ انہوں نے غلام اسحاق خان جیسا محب وطن نہیں دیکھا۔ساری دنیا میں پاکستان کی ایٹمی تیاریوں کے چرچے شروع ہوگئے۔ طویل محنت اور جدوجہد کے بعد جب قدیرخان ریسرچ لیبارٹری نے کولڈ ٹیسٹ کی تیاری مکمل کرلی تو اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے لیبارٹری کا دورہ کیا۔جب انہیں بتایاگیا کہ پاکستان اب اپنے جوہری پروگرام کے کولڈ ٹیسٹ کیلئے تیار ہے تو صدر ضیاء الحق حیرانگی سے دیکھنے لگے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے پھر کہنے لگے کہ جبھی تو ساری دنیا میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر شور مچایاجارہا ہے۔ 1974سے لے کر چوبیس سالوں تک کی شبانہ روز محنت کے بعد پاکستان نے 28مئی1998کو اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور پاکستان عالم اسلام کا پہلا اور دنیا کا ساتواں جوہری صلاحیت رکھنے والا ملک بن گیا۔ تب سے دشمن کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ صرف جوہری تجربے پر اکتفا نہیں کیاگیا۔پاکستان نے غزنوی، غوری اور شاہین جیسے بیلاسٹک میزائل بھی تیار کئے جو ساڑھے تین ہزار کلو میٹر تک جوہری ہتھیار لے جانے اور دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔حکومت پاکستان نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوتین مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی، ہلال امتیاز اور نشان امتیاز کے اعزازات سے نوازا۔ میرا ماننا یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کے سینے پر سجنے کے بعد ان اعزازات کی قدر اور اہمیت بڑھ گئی ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہ صرف ملک کو جوہری طاقت بنایا بلکہ  انہوں نے ملک میں دس ہزار جوہری سائنسدان بنائے یہ اے کیوخان کا قوم پر ایک اور بڑا احسان ہے۔85سال کی عمر میں جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے اندرون و بیرون ملک کوئی جائیداد، آف شور کمپنیاں، کارخانے نہیں تھے۔ البتہ چندے جمع کرکے مختلف شہروں میں تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنادیئے جو اس قوم پر ان کا ایک اور احسان ہے۔ آج وہ محسن ملک و ملت ہم میں نہیں رہے۔ لیکن پاکستان کو دفاعی لحاظ سے ہمیشہ کیلئے ناقابل تسخیر بنادیا۔ قوم تاقیامت ان کی احسان مند رہے گی۔وہ قوم کے دلوں اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔اس وقت پاکستان کو جو دفاعی خود کفالت حاصل ہے اور وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے تو یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی دی ہوئی طاقت اور اعتماد ہے جو پاکستان کو جوہری طاقت کے طور پر حاصل ہے اور عالمی منظرنامے پر نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔