شاہ فرمان کی تلخ نوائی اور امریکہ 

یہ ایک معمول کے مطابق ایک عام سا ہینڈ آؤٹ تھا تاہم پہلی بار اس میں بعض ایسے الفاظ نظروں سے گزر ے جس نے پہلی بار پوراہینڈ آؤٹ پڑھنے اور پھر یہ معاملہ کریدنے پر مجبور کردیا بات آگے بڑھانے سے قبل یہ بتاناضرور ی ہے کہ امریکہ ایک بارپھر آنکھیں بدلتا دکھائی دے رہاہے افغانستان سے اس کی فوجوں کے انخلاء کے دوران پاکستان نے جس طرح تعاون کیا اورجس طرح پھر اسلام آباد میں محفوظ قیام کاموقع دیاگیا ان سب کو فراموش کردیاگیاہے بالکل اسی طرح جس طرح روس کے انخلاء کے بعد کیاگیا تھا روسی انخلاء کے ساتھ ہی نہ صرف امریکہ نے نظریں پھیرلی تھیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان پرپابندیا ں بھی عائد کرکے ثابت کردیاتھا کہ امریکہ کسی بھی طورقابل اعتماد دوست نہیں ہوسکتا اس مرحلہ پرامریکہ نے پاکستان اورخود افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا جس کاخمیازہ پھر آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کو بھگتنا پڑا۔کابل خانہ جنگی کی نذرہوگیا مجاہدین آپس میں ٹکرا گئے شاید اسی طرح امریکہ اپنا اسلحہ جو ان مجاہدین کے پاس بہت بھاری مقدار رہ گیا تھا ختم کراناچاہتاتھا۔یہ اسلحہ پھرایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوا ایسے میں پھرطالبان کاظہورہوا جنہوں نے محض قیام امن کے نام پر عوام کااعتمادحاصل کرکے کابل تک قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرلی تھی مگر پھر اسی حکومت کو ایک مفروضے کی بنیاد پر گرانے کیلئے امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوگیا پھر سے پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اورجب امریکہ افغانستان کی دلدل میں پھنس گیا تو اس سے نکلنے کیلئے پھر سے پاکستان سے تعاون کی د رخواست کی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے آخر ہم کب تک ایک ہی سوراخ سے باربار ڈسے جائیں گے کوئی تو ہو جو امریکہ کو اتنا کو کہہ سکے کہ جو پالیسی اس نے اختیار کررکھی ہے وہ منافقت کہلاتی ہے ہمارے حکمران تو ایک طرف اپوزیشن والے بھی امریکہ کو ناراض کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ایسے میں گزشتہ دنوں پشاور کے گورنرہاؤس میں ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں پہلی بار کسی گورنر نے کسی امریکی نمائندے کو کھری کھری سناڈالیں حتیٰ کہ اخبارات میں بھی جو خبر شائع ہوئی تمام ترچھلنیوں سے گذرنے کے بعد بھی جو الفاظ سامنے آئے وہ گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کے متقاضی دکھائی دیتے ہیں خبر کے مطابق گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان سے پشاور میں تعینات امریکی قونصل جنرل رچرڈ ایچ رائیلی نے پیرکے روز گورنر ہاؤس پشاور میں ملاقات کی۔ملاقات میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ افغانستان کی موجودہ سیاسی و سکیورٹی صورتحال پر بھی گفتگو کی گئی۔ اس موقع پر گورنر شاہ فرمان کاکہناتھاکہ پرامن اور مستحکم افغانستان کا فائدہ پاکستان، امریکہ سمیت پوری دنیا کو ہے۔انہوں نے کہاکہ افغان عوام کا حق ہے کہ وہ اپنا فیصلہ اور اپنا نظام خود منتخب کریں۔افغانستان میں 90کی دہائی سے پیدا کردہ حالات کے باعث افغان عوام کی10 لاکھ شہادتیں ہوئیں۔گورنرنے کہاکہ افغان عوام کی شہادتوں اور کٹھن حالات کے باوجود افغان عوام کو بے یارومددگا چھوڑ دیا گیااوربھارت کو افغانستان میں لانا امریکہ کی بہت بڑی غلطی تھی۔انہوں نے کہاکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے دنیا کو افغان عوام کی مدد کرنی چاہئے۔گورنر نے کہاکہ پاکستان اور امریکی عوام کے درمیان باہمی بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں اس ملاقات میں گورنر خیبرپختونخو ا نے دو اہم باتوں کا ذکرکیا بلکہ دو اہم حقائق کھل کرامریکی قونصل جنرل کے سامنے رکھے گورنر شاہ فرمان میں بہت سے کمیاں ہونگی لیکن یہ حقیقت ہے کہ تاریخ اور خاص طورپر وارسٹڈیز پر انہیں غیر معمولی عبور حاصل ہے اور اس ملاقات کے دوران انہوں نے اس صلاحیت کابھرپور مظاہر ہ کیا انہوں نے امریکی نمائندے کو یاد دلایا کہ جس کمیونزم کے خاتمہ کیلئے امریکہ افغان مجاہدین کی مدد سے میدان میں موجود تھا اس کے خاتمہ میں نمایاں کردار پاکستان نے بھی ادا کیا پاکستان اور افغان مجاہدین نے مل کر سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا جس کے نتیجہ میں اس کاوجود ہی بکھر گیا اور پھرامریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر سامنے آیا مگر اس کے صلے میں پاکستان اور خود افغانستان کو کیا ملا انہوں نے یہ بھی یاددلایاکہ مشرقی یورپ کو تو یورپی یونین کاحصہ بناکر اس کے زخموں پر مرہم تو رکھا گیا مگر جن لوگوں کی وجہ سے مشرقی یورپ کو کمیونزم سے چھٹکارا نصیب ہوا تھا ان کو تو سرے سے نظر اندازہی کردیا گیا ساتھ ہی ان کی طرف سے ایک اور دلچسپ حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا عام طورپر امریکی ہرمعاملہ کو ڈالروں کے زاویہ سے دیکھتے ہیں ان کاخیال ہے کہ ڈالر ہی سب کچھ ہے چاہے کسی کی عزت نفس متاثرہوئی ہے قومی سطح پر بدترین نقصانات کاسامناہواہو یا پھر امریکی طوطاچشمی سے ہزاروں جانوں کاضیاع ہوا ہے بس کیاہے چندملین ڈالر دے کر احسان کریں گے اور سامنے والا سب کچھ بھو ل جائے گا اسی لیے تو اقبال نے کہاتھاکہ”احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات“یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ ڈالروں نے احساسات کو کچل کررکھ دیاہے اس ملاقات میں واضح کیاگیاکہ جناب عالی ہر معاملہ کو ڈالر کے تناظر میں دیکھنایا ڈالروں کے ترازوتولنا مناسب نہیں کچھ معاملات اس سے بڑھ کر اہمیت کے ہوتے ہیں اور جہاں تک پختونوں کاتعلق ہے تووہ پیسوں سے زیادہ عزت کو ترجیح دیتے ہیں ذرائع کے مطابق گورنر نے واضح کیاکہ آپ کے ڈالر ان شہداء کے خون کامعاوضہ نہیں ہوسکتے جو اس تمام عرصہ میں کام آئے یہ بھی کہاگیاکہ افغان معاملہ کو انیس سو نوے کی دہائی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جب امریکہ نے علاقہ کوتنہا چھوڑ دیا تو آگے چل کر جو آگ لگی اس نے اس خطے کے کئی گلشن خاکستر کرڈالے۔ گویا امریکی نمائندے کو یاد دلایا گیا کہ یہ آپ ہی کا دیاہوا تحفہ تھا اسی طرح یہ کہناکہ بھارت کو افغانستان میں لانا امریکہ کی بہت بڑی غلطی تھی یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو پہلی بار کسی گورنر نے کسی ا مریکی کے منہ پر بیان کردی ایک طرف پاکستان کی مدد سے افغانستان پر قبضہ کیاجاتاہے وہاں پر پاکستان کی مدد سے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی جاتی ہے اس حکومت کے استحکام کے لیے پاکستان پر تعاون کیلئے مسلسل دباؤ ڈالا جاتاہے مگر دوسری طرف اسی افغانستان میں پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کو لابٹھایا جاتاہے عام سے عام الفاظ میں بھی یہ بدترین منافقت کے زمرے میں آتاہے شاہ فرمان نے جس مخصوص انداز میں امریکی مہمان کی کلاس لی ہے اس کی تعریف کی جانی چاہئے کیونکہ اگر چند اور اعلیٰ حکومتی عہدید ار بھی معذرت خواہانہ انداز چھوڑ کر اسی طرح کاجارحانہ انداز اختیار کریں تو کسی نہ کسی حد تک امریکہ کو باور کرایاجاسکتاہے کہ جی اب یہاں حقیقی تبدیلی آچکی ہے اب با ت ڈالروں کی نہیں بلکہ محبت واحترام کی بنیاد پرہی کی جائے تو کچھ بن سکے گا۔