محسن ِپاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم نے اپنی وفات (دس اکتوبر دوہزاراکیس) سے 2 روز قبل ایک وکالت نامے پر دستخط کئے جو پاکستان میں طب (میڈیکل و ڈینٹل) کے تعلیمی بندوبست سے متعلق ہے اور وہ چاہتے تھے کہ بذات ِخود اسلام آباد کی عدالت ِعالیہ (ہائی کورٹ) کے سامنے پیش ہو کر اُن طلبا و طالبات کا مقدمہ لڑیں جو سراپا احتجاج ہیں مرحوم و مغفور ڈاکٹر قدیر نے علیل ہونے کے باوجود جس فکرمندی کے ساتھ وکالت نامے پر دستخط کئے اُس کے مندرجات و تفصیلات اپنی جگہ اہم (توجہ طلب) ہیں۔ بالخصوص اِس میں طب کے امتحانات حتیٰ کہ طلبہ اور اُن کے والدین کیخلاف پولیس تشدد اور گرفتاریوں کو موضوع بنایا گیا ہے جبکہ اُنہوں نے ’پاکستان ڈینٹل اینڈ میڈیکل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کو تحلیل کر کے ’پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)‘ کی تخلیق پر بھی سوالات اُٹھائے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آخری دستخط شدہ درخواست پر 12 اکتوبر کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی اور اِس میں نامزد کئے گئے حکومتی محکموں (وزارت ِداخلہ‘ وزارت ِصحت اور پاکستان میڈیکل کمیشن) کو اگلی سماعت (تین ہفتے بعد) طلب کیا تاکہ وہ اپنا مؤقف پیش کر سکیں۔ عدالتی حکم کے مطابق دیا گیا تین ہفتے کا وقت ضرورت سے زیادہ اور کیس کو حل کرنے کی بجائے اِس اُلجھا دے گا اور اِس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی کیونکہ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ایم ڈی کیٹ نامی امتحان میں کامیاب ہونے والے داخلہ درخواستیں جمع کروا رہے ہیں‘ جن پر آئندہ سماعت سے قبل داخلوں کا حتمی فیصلہ بصورت میرٹ لسٹیں بھی سامنے آ جائے گا اور ایسی صورت میں اسلام آباد اگر ایم ڈی کیٹ کو کالعدم قرار دیتی ہے تو پورے کا پورا داخلے کا نظام ازسرنو مرتب کرنا پڑے گا اور جن طلبہ نے نجی میڈیکل کالجوں کے داخلہ فارمز کی صورت ادائیگیاں کی ہیں وہ دوبارہ کرنا پڑیں گی۔ عدالت نے گرفتار طالب علموں کے خلاف درج ایف آئی آر کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے‘ جو گھنٹوں میں یا زیادہ سے زیادہ ایک دن میں عدالت کو فراہم کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایم ڈی کیٹ کے خلاف ستمبر کے آخری ہفتے شروع ہونے والے احتجاج کی تمام تر تفصیلات پولیس ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ نصف ماہ یعنی پندرہ دن سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور طلبہ کا احتجاجی دھرنا اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں جاری ہے‘ جس کا نوٹس وزیراعظم بھی لے چکے ہیں‘ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا وسائل سے طلبہ کے اسلام آباد احتجاجی دھرنے سے متعلق اطلاعات و تفصیلات ناقابل یقین و بیان ہیں کہ کس طرح طلبہ اور اُن کے والدین کو ہراساں کرنے کے علاؤہ اُن کی ضروریات زندگی تک رسائی بھی محدود کی گئی تاکہ وہ مشکلات کے باعث اپنا احتجاج ترک کر کے گھروں کو مایوس لوٹ جائیں لیکن ایک طرف طلبہ اور اُن کے والدین اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ مداخلت کر چکی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ تحریراً جواب چاہتی ہے کہ پولیس تشدد سے کتنے طلبہ زخمی اور کتنی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ ’اِین ایل اِی ٹیسٹ‘ کیوں لئے جا رہے ہیں اور اِن کا طریقہئ کار کیا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد کوئی بھی وفاقی محکمہ سنٹرلائزڈ آرڈر جاری نہیں کر سکتا تو ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کس قانون کے تحت ایسا کر رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ میڈیکل کمیشن کے ”کنڈکٹ آف ایگزامنیشن ریگولیشن 2021ء“ کو کالعدم قرار نہ دیا جائے؟ درخواست گزار کی جانب سے اِس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ احتجاج کرنے والے ’ینگ ڈاکٹرز‘ اور طلبہ پر پولیس کے تشدد (لاٹھی چارج) سے دنیا میں جوہری صلاحیت رکھنے والے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور طلبہ کو تیاری کیلئے مناسب وقت دیئے بغیر امتحان کا نیا نظام متعارف کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ درخواست میں آئین پاکستان کی حوالہ دیتے ہوئے طلبہ کیلئے میرٹ پر (بلاامتیاز و استحصال) اعلی تعلیم کی سہولت کا خاطرخواہ بندوبست کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔