بڑھتی ہوئی مہنگائی

’مہنگائی کی اپنی تاریخ (ماضی و حال)‘ رہا ہے جس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ قیمتوں کو پر لگ جائیں تو اِس کی اُڑان روکی نہیں جا سکتی۔ ہر طرف سے معیشت کے حوالے سے بُری خبریں مل رہی ہیں! بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) نے پاکستان کے لئے شرح نمو چار فیصد کے ساتھ رواں مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کے دوران مہنگائی اور بیروزگاری کی بلند ترین شرح کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ شرح نمو بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے قریب 2 ہفتے قبل بتائی تھی۔ اس کے علاوہ چند روز قبل عالمی بینک کی جانب سے تین اعشاریہ چار فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کی گئی تھی جس کو  حکومت نے غیر حقیقی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ فِچ سلوشنز نے پاکستان کی شرح نمو چار اعشاریہ دو فیصد بتائی تھی جو کہ چار اعشاریہ آٹھ فیصد کے بجٹ کے ہدف سے نمایاں طور پر کم تھی۔ مرکزی بینک (سٹیٹ بینک) کے بقول ملک کی خام پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو پانچ اعشاریہ چار فیصد سے زائد متوقع ہے لیکن عالمی مالیاتی ادارے اور معاشی تجزیہ کار اِس دعوے کو نہیں مان رہے! ورلڈ اکنامک آؤٹ لک (ڈبلیو اِی او) میں واشنگٹن میں مقیم قرض دینے والی ایجنسی نے رواں مالی سال کے دوران افراط زر کی اوسط شرح ساڑھے آٹھ فیصد‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے تین اعشاریہ ایک فیصد اور بے روزگاری کی شرح چار اعشاریہ آٹھ فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔ آئی ایم ایف نے مالی سال دوہزارچھبیس تک اقتصادی ترقی کی شرح آہستہ آہستہ جی ڈی پی کے پانچ فیصد تک پہنچنے کا تخمینہ (اندازہ) رواں سال اپریل میں لگایا تھا۔ افراط زر کی شرح گزشتہ مالی سال کے آٹھ اعشاریہ نو فیصد کے مقابلے میں رواں سال ساڑھے آٹھ فیصد تک کم ہوجائے گی تاہم اگلے سال کے آخر تک دوبارہ بڑھ کر نو اعشاریہ دو فیصد ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف کو توقع تھی کہ کنزیومر پرائز انڈیکس مالی سال دوہزارچھبیس تک آہستہ آہستہ کم ہو کر ساڑھے چھ فیصد ہو جائے گا۔ اندازہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال دوہزاراکیس میں جی ڈی پی کے صفر اعشاریہ چھ فیصد سے بڑھ کر اگلے سال (مالی سال دوہزاربائیس) تک تین اعشاریہ ایک فیصد ہو جائے گا اور پھر مالی سال دوہزارچھبیس تک کم ہو کر دواعشاریہ آٹھ فیصد ہو گا اِس منظرنامے میں معاشی اِمکانات کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور پالیسیوں کی تجارت زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ماہئ جولائی میں کی گئی پیش گوئی کے مقابلے میں رواں برس (دوہزاراکیس) کے لئے عالمی نمو کا تخمینہ معمولی طور پر کم ہو کر قریب چھ (5.9) فیصد رہ گیا ہے۔ کم آمدنی والے ترقی پذیر ملک کے گروپ کا نقطہ نظر وبائی امراض کی خرابی کی وجہ سے کافی تاریک ہو گیا ہے۔ توقع ہے کہ ترقی یافتہ معیشت رکھنے والے ممالک کی مجموعی پیداوار آئندہ برس (دوہزاربائیس) میں وبا سے پہلے والے رجحان کو دوبارہ حاصل کر لے گی۔ اُبھرتی ہوئی مارکیٹ اور ترقی پذیر اکانومی گروپ (چین کو چھوڑ کر) کی پیداوار دوہزارچوبیس میں وبائی امراض سے پہلے کی پیش گوئی سے ساڑھے پانچ فیصد کم رہنے کی توقع ہے ’آئی ایم ایف‘ نے ممبر ممالک کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ وبائی امراض کے بعد کی معاشی چیلنجز سے نمٹیں‘ جن میں اِنسانی سرمایہ کو اکٹھا کرنا‘ گرین ٹیکنالوجیز اور ڈیجیٹلائزیشن سے متعلق ترقی کے نئے مواقع کو آسان بنانا‘ عدم مساوات کو کم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ مہنگائی میں کمی کا تعلق ملک کی خام پیداوار میں اِضافے سے ممکن ہے جس کی وجہ سے قومی سطح پر اوسط ’قوت ِخرید‘ میں اِضافہ ہوتا ہے۔