محض تیس کروڑ ڈالر کاایٹمی پروگرام 

پاکستان دولخت ہونے کے فوراً بعد جب بھارت نے ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان کے لیے ایک اورخطرے کی گھنٹی بجادی تھی تو یہی وقت تھا جب پہلی بار پاکستان نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے حوالہ سے سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیاتھا بعض محققین کے مطابق اگرچہ پاکستان نے پچاس کی دہائی سے ہی اس حوالہ سے کام شروع کردیاتھا تاہم اس کامقصد ایٹمی ہتھیاروں کاحصول نہیں تھا محض ایٹمی توانائی کے ذریعہ اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنا تھا تاہم بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد پہلی بار جب اس حوالہ پیشرفت شروع ہوئی تو انہی دنوں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی اپنی خدمات حکومت پاکستان کو پیش کردی تھیں اور اس حوالہ سے تفصیلات باربارسامنے آتی رہی ہیں یہ تفصیلات ہمار ا موضوع نہیں ہمارا آج کاموضوع ہمارے ایٹمی پروگرام پراٹھنے والے اخراجات ہیں کیونکہ ہمیشہ اس سلسلہ مبالغہ آرائی سے کام لیاجاتارہاہے اس کی مالیت اتنی زیادہ بھی بیان کی جاتی رہی ہے کہ بعض ریاست بیزار عناصر تو اس ایٹم بم کوایک بوجھ تک قراردینے سے نہیں چوکتے تاہم اس حوالہ سابق آرمی چیف جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ نے اپنی کتاب ”اقتدار کی مجبوریا ں“میں پہلی بار کھل کر جو حقائق بیان کیے ہیں ان سے یہ پتہ چلتاہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام چلانے والے حکمرانوں اور سائنسدانوں نے کس قدر حب الوطنی اور کفایت شعاری سے کام لیاہے جنرل بیگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ”عام تاثریہ ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے“جنرل بیگ کہتے ہیں کہ اگست 1987تک ایٹمی ہتھیار اورڈیلیوری سسٹم کاتجربہ مکمل ہوچکاتھاتو جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے گذشتہ دس سال میں پروگرام پر اٹھنے والے اخراجات کی نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کے سامنے تفصیلات پیش کرنے کو کہا جو اسی ماہ پیش کردی گئیں جنرل بیگ کے بقول حیرت کی بات تھی کہ وہ اخراجات جو ڈالروں میں تھے اورجواخراجات پاکستان میں ہوئے تمام ملاکر بھی 300ملین ڈالر سے کم تھے یہ لاگت فرانس سے خریدی گئی ایک آبدوز کی قیمت سے بھی کم ہے یوں پاکستان نے محض تیس کروڑ ڈالر سے بھی کم میں دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس لحاظ سے انفرادیت کاحامل ہے کہ ذوالفقار علی بھٹونے 1975میں اعلان کیا کہ پاکستان ہرحالت میں ایٹمی ہتھیاربنانے کی صلاحیت حاصل کرے گا اورپھر محض دس سال سے بھی کم عرصہ اور تین سو ملین ڈالر سے کم لاگت میں پاکستان نے ایسا کرکے دکھایا یہ پاکستان کاواحد منصوبہ کہلایا جاسکتاہے کہ جو بھٹونے شروع کیا اوراسی بھٹوکو پھانسی دینے والے جنرل ضیاء نے اسے بھرپور طریقے سے جاری رکھا یہ دونوں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے دو متضاد کردار تھے مگر کم ازکم ایٹمی پروگرام کے معاملہ پر جنرل ضیاء نے بھٹو کی تقلیدکرنے میں کو ئی عار محسو س نہیں کی بعدازں جب جنرل ضیاء رخصت ہوئے تو غلام اسحاق خان نے تمام تر نامساعد حالات اور مالی مشکلات کے باوجود ایٹمی پروگرام کیلئے فنڈنگ کی کمی نہ ہونے دی بے نظیربھٹو اورنواز شریف نے بھی ایٹمی پروگرام پر کسی قسم کاسمجھوتہ نہیں کیا کم ازکم اس ایک پروگرام نے ثابت کردیاکہ اگر حکمران پالیسیاں ملکی اوروسیع ترقومی مفاد میں بنائیں اورپھراس پر ہرصورت عمل کرکے دکھائیں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت کامیابی کے حصول سے نہیں روک سکتی۔