خواتین کو امداد نہیں، خود مختار بنائیں 

تخفیف غربت وسماجی تحفظ سے متعلق وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ ہمارے ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ترقی کی جدوجہد میں خواتین کو شامل کئے بغیر منزل تک رسائی ممکن نہیں، احساس پروگرام کے تین چوتھائی سے زیادہ فوائد خواتین اور بچیوں کے لیے وقف ہیں۔ڈاکٹر ثانیہ نے کہاکہ ملک بھر میں احساس تعلیمی وظیفہ پروگرام کے تحت لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو زیادہ وظیفہ دیاجاتا ہے۔مستحق خاندان کی بچیوں کو پرائمری سے ہائر سیکنڈری کی سطح تک مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ پروگرام کا مقصد والدین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں بالخصوص لڑکیوں کو سکول بھیجیں۔ پانچویں جماعت مکمل کرنے والی لڑکیوں کیلئے احساس گریجویشن وظیفہ متعارف کرایاگیا ہے تاکہ لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ احساس نشوونما کے تحت دو سال سے کم عمر بچوں کو خصوصی غذائیت سے بھرپورخوراک اور نقدمالی معاونت فراہم کی جاتی ہے احساس انڈر گریجویٹ سکالرشپ پروگرام کے تحت ضرورت اور میرٹ پر مبنی سکالرشپ فراہم کیاجاتاہے۔احساس کیش ٹرانسفر پروگرام کے تحت 80 لاکھ خواتین کو نقد مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ جلد ہی احساس ون ویمن ون اکاؤنٹ پالیسی کے تحت مکمل بینک اکاونٹس میں انکی رقم منتقل ہوجائے گی۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر خود ایک معتبر خاندان سے تعلق رکھنے والی،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل احترام خاتون ہیں۔وہ ملک میں خواتین کی ترقی، خوشحالی، انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور  مفید شہری بنانے کے لئے بھرپور جدوجہد کررہی ہیں۔وزیر اعظم کو بھی ان کی قابلیت اور اخلاص پر بھروسہ ہے۔احساس کیش ٹرانسفر پروگرام کے تحت جن 80لاکھ خواتین کو نقد مالی امداد فراہم کی جارہی ہے وہ اپنی جگہ تاہم اب بھی بہت سی مستحق، غریب، اہل اور نادار خواتین ایسی ہیں جن کواحساس کفالت پروگرام سے کچھ ملا نہ ہی کیش ٹرانسفر اور ون ویمن ون اکاونٹ پروگرام میں ان کا نام شامل کیاگیا۔ احساس پروگرام سے زیادہ تر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل خواتین استفادہ کر رہی ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بی آئی ایس پی سے کچھ غیر مستحق لوگ اب بھی فائدہ اٹھارہے ہیں‘ بعض خاندانوں میں پانچ سے چھ خواتین کو بھی مالی امداد دی جارہی ہے اور جو خواتین مالی امداد کی مستحق اور غریب ہیں وہ محروم رہ جاتی ہیں۔ڈاکٹر ثانیہ کی کوششوں سے بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والے ہزاروں غیر مستحق لوگوں کے نام خارج کئے گئے جن میں گریڈ سترہ سے بائیس تک کے افسروں، اراکین اسمبلی، کاروباری شخصیات اور کروڑ پتی لوگوں کی بیگمات بھی شامل تھیں۔یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ تعلیمی وظائف  صرف سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کو دیئے جاتے ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے جو لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے انہیں پرائیویٹ سکولوں میں پڑھاتے ہیں  وہ اس میں شامل نہیں ہیں۔ڈاکٹر ثانیہ نشتر سے ہماری گذارش ہے کہ پورے ملک میں نادار اور مستحق خاندانوں کا سروے کرائیں اور حقیقی معنوں میں مستحق لوگوں کا ڈیٹا تیار کروائیں اور انہیں احساس پروگرام کے ذریعے مرحلہ وار یکمشت اتنی مالی امداد فراہم کریں کہ وہ مستقل حکومتی امداد پر پلنے کے بجائے اپنے لئے باعزت روزگار کا بندوبست کرنے کے قابل ہوجاسکیں۔ یہی طریقہ کار بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے بھی اختیار کیاجاسکتا ہے۔تاکہ حقیقی معنوں میں مستحق لوگ حکومتی امداد سے مستفید ہوں اور امداد پر پلنے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔