بڑے ڈیم 

سند ھ طاس معاہد ہ ہوا تو پاکستان نے اپنے حصہ کاپانی محفوظ کرنے اور استعمال میں لانے کے لئے بڑے ڈیموں کی تعمیر کاآغازکیاچنانچہ ملک کا سب سے بڑا تربیلہ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا پھر منگلا ڈیم بھی بنایا گیا اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ایک فوجی ڈکٹیٹر نے ملک کو دوبڑے ڈیم دیئے اور بعدازاں کسی بھی حکمران نے ملک میں بڑے ڈیموں کی تعمیر پر سنجید گی سے توجہ نہیں دی۔یوں ہم اپنے حصہ کے پانی کااستعمال کرنے سے قاصرہوتے چلے گئے اسی لئے تو واپڈا کے سابق چیئرمین انجینئر شمس الملک بارباریہ کہتے ہیں ہم نے اپنے حصہ کا پانی عملاً دوسروں کے استعما ل کے لئے چھوڑ دیاہے اوریہی وجہ ہے کہ بھارت ہمارے حصہ کے پانی کو اپنے استعمال میں لانے کے لئے سازشوں میں مصرو ف ہے۔ایک عرصہ کے بعدبھاشا دیا مر ڈیم پر کام شروع ہوا تو خدشہ تھاکہ کام حسب روایت سست روی کاشکار ہوجائے گا تاہم فی الوقت اس حوالہ سے کوئی زیادہ پریشان کن خبریں سامنے نہیں آئیں۔گذشتہ دنوں چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین نے دریائے سندھ پر زیر تعمیر دیامربھاشا ڈیم کا دورہ کیا اورمنصوبے پر جاری پیش رفت کا جائزہ لیا۔کمانڈر ٹین کورلیفٹیننٹ جنرل ساحرشمشادمرزا بھی اس دورے میں ان کے ہمراہ تھے۔ پاکستان کی پائیدار ترقی کیلئے دیامربھاشا ڈیم اہم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس منصوبے کی بدولت زراعت کیلئے پانی دستیاب ہوگا، سیلاب سے بچاؤمیں مددملے گی اور سستی پن بجلی پیدا ہوگی۔ لہٰذا اس منصوبے کی شیڈول کے مطابق تکمیل کیلئے تمام متعلقہ اداروں کی جانب سے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے کی بدولت ملکی اقتصادیات میں استحکام آئے گا اور غربت میں کمی واقع ہوگی۔ یہ منصوبہ مقامی لوگوں کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ واپڈااس منصوبے کے تحت پراجیکٹ ایریا کی ترقی کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر اٹھہترارب پچاس کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کررہا ہے۔ اس وقت منصوبے کی آٹھ مختلف سائٹس پر بیک وقت تعمیراتی کام جاری ہے۔ان سائٹس میں سڑکوں کی تعمیر، دریائے سندھ پر مرکزی ڈیم سے زیریں جانب مستقل پل اور اکیس میگا واٹ کا تانگیر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ڈیم کی تعمیر کیلئے بالائی جانب سے کھدائی، ڈائی ورشن ٹنل، ڈائی ورشن کینال،ڈائی ورشن ان لیٹ اور پاور ان ٹیک کی کھدائی شامل ہے۔اس وقت بھی واپڈا،کنسلٹنٹس اور کنٹریکٹرز کے پاس تین ہزاردو سومقامی افراد کام کررہے ہیں۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب اور پانی کے بحران کے لئے ڈیم کی اہمیت مسلمہ ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم، ملک کی بقا ء اور معاشی نمو کے لئے بہت ضروری ہے اس منصوبے سے چونسٹھ لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوسکے گا اور ڈیم سے بارہ لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوسکے گی جب کہ منصوبے سے4500میگاواٹ سستی بجلی مل سکے گی منصوبے سے سولہ ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی اور نیشنل گرڈ کوسالانہ اٹھارہ ارب دس کروڑ یونٹ پن بجلی ملے گی، ملک میں پانی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے گا جب کہ قومی خزانے کو 290 ارب کا فائدہ ہوگا بدقسمتی سے ہم نے غلط فیصلے کئے جبکہ ہمارے پاس دریاؤں سے اتنی زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش تھی تاہم ہم اس کے بجائے درآمدی ایندھن سے بجلی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم ڈی انڈسٹرالائزیشن کی طرف چلے گئے اور وہ ملک جو ہم سے پیچھے تھے وہ زیادہ آگے نکل گئے دیامر بھاشا ڈیم ہمارے ملک کا سب سے بڑا ڈیم ہوگا اور سمجھ لیں کہ یہ تیسرا بڑا ڈیم ہوگا۔ دیامر بھاشا ڈیم بنانے کا فیصلہ پچاس برس پہلے ہوا تھا اور ڈیم کے لئے اس سے بہتر جگہ نہیں ہوسکتی، یہ قدرتی ڈیم ہے، جب ہم پانی سے بجلی بناتے ہیں تو اس سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ نہیں ہوتا جبکہ فرنس آئل اور کوئلے سے اس میں اضافہ ہوتا ہے لہٰذا اس کے دوفائدے ہیں۔ہمیں ایندھن درآمد نہیں کرنا پڑے گا اور نہ ہی ماحول پر منفی اثر پڑے گا۔ یہ منصوبہ چلاس اور گلگت بلتستان کے عوام کے لئے زبردست موقع ہوگا اور ڈیم بننے کے بعد یہ سیاحت کا بڑا مقام بن جائے گا۔آر سی سی کا یہ ڈیم دنیا کا بلند ترین ڈیم ہوگا اس منصوبے میں چائنا پاور کا حصہ ستر فیصد جب کہ ایف ڈبلیو او کا حصہ تیس فیصد ہوگا۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کا اعلان جنرل پرویز مشرف نے بھی کیا تھا اور میاں نواز شریف کے دور میں بھی اس پر کافی کام کیا گیا۔ تعمیر کا آغاز وزیراعظم عمران خان کے دور میں ہوا اور پاکستان کے عوام توقع کرتے ہیں کہ یہ ڈیم مقررہ مدت کے اندر مکمل کر لیا جائے گا اور تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت میں اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ کا عملدرآمد بینچ بھاشا ڈیم کی تعمیر کی مانیٹرنگ جاری رکھے گا تاکہ یہ منصوبہ صاف اور شفاف طور پر مقررہ مدت میں مکمل کیا جا سکے۔دیامر بھاشا ڈیم کا منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے جس کی ضمانت افواج پاکستان نے دے رکھی ہے کہ سی پیک کے منصوبے بروقت مکمل کئے جائیں گے اور اس دوران ان کی سکیورٹی کے مکمل انتظامات کئے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بھاشا ڈیم کی تعمیراتی تقریب میں فوج کی اعلیٰ قیادت موجود تھی۔ تہترسالوں کے دوران صرف تین بڑے ڈیموں کی تعمیر پاکستان کی افسوس ناک کہانی ہے جس سے پاکستان کے حکمرانوں کی نا اہلی،بدنیتی اور مجرمانہ غفلت کھل کر سامنے آتی ہے۔ افسوس پاکستان اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کے باوجود دنیا کے ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایمرجنسی کی بنیادوں پر کم از کم پانچ سال تک ترقیاتی منصوبوں کی طرف پوری توجہ دینا ہوگی تاکہ ہم اپنی پسماندگی کو دور کر سکیں۔ اگر ہمارے سابقہ حکمران پانی سے بجلی بنانے کی بجائے کے تیل سے بجلی بنانے کے فیصلے نہ کرتے تو آج پاکستان کے عوام کو سستی اور وافر بجلی دستیاب ہوتی۔ افسوس ہمارے حکمرانوں نے قومی مفاد کو یکسر نظر انداز کر دیا اور ریاست اور عوام کو ایسے سنگین ترین بحران میں مبتلا کر دیا جس سے باہر نکلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔دیا مر بھاشا ڈیم کے ساتھ ساتھ اب داسو ڈیم،بالاکوٹ ڈیم،سکی کناری ڈیم بھی اہم منصوبے ہیں جن میں سے سکی کناری ڈیم تو تکمیل کے مراحل میں ہے جبکہ داسو ڈیم اور بالاکوٹ ڈیم کے لئے زمینوں کاحصول جاری ہے۔بڑے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں پر مستقبل میں کسی قسم کی سیاست نہیں ہونی چاہئے۔