پشاور کہانی: بھاری دن

اہل پشاور کے لئے درد کے عنوانات اور بیانات بہت ہیں۔ ہر درد کے ساتھ دُکھوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ الگ سے ”نتھی‘‘ملتا ہے لیکن جس ایک مرض (مسئلے) نے سرطان (بحران) کی شکل اِختیار کر رکھی ہے تو ”ٹریفک کی روانی‘‘ہے جس کے محرکات قدرتی بھی ہیں اور اِن کا باعث انسانوں کی اپنی تخلیق کردہ آفات بھی ہیں جیسا کہ سیاسی و سماجی سمجھ بوجھ رکھنے کا دعویٰ کرنے والے جب کبھی بھی اپنے مؤقف کو پیش کرنا چاہتے ہیں تو اِس لئے جم غفیر جمع کر کے طاقت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اِس قسم کی اجتماعاتی سیاست کو ”مہذب ترین (جائز) اسلوب“ بھی سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ جم غفیر جمع کرنا ایک انتہائی مشکل عمل ہوتا ہے جس کے بعد مؤقف یا مطالبات پیش کرنے کے لئے کسی دوسرے ذریعے (طریق) کی ضرورت نہیں رہتی۔ ابتداء میں جس شدت سے سیاسی و سماجی مسائل کے بارے میں اختلافی مؤقف پیش کیا جاتا ہے‘ اُس کے مراتب و مراحل کا خاطرخواہ خیال نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی عام آدمی کی تکلیف و مشکلات کو دھیان میں رکھا جاتا ہے۔ کمال کی سمجھ بوجھ ہے کہ آج تک کوئی بھی دائیں یا بائیں بازو کی سیاسی جماعت اپنے اجتماعات یا احتجاج کے لئے بیابانوں کا رخ نہیں کرتے۔ صورتحال کے دوسرے (ضمنی) پہلو کا تعلق عوام کی عمومی نفسیات سے ہے اور وہ یہ ہے کہ دکھ درد‘ پریشانی یا مُشکلات یاد نہیں رکھی جاتیں یا تلخ یادوں کے بارے نہ سوچ کر انسان راحت محسوس کرتے ہیں جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے اپنی مشکلات سے آسانیاں تلاش کیں اور جنہوں نے مشکلات کا مطالعہ‘ سوچ بچار اور غوروخوض کیا اُنہیں ’پائیدار راحت‘ نصیب ہوئی۔ لب لباب یہ ہے کہ مذکورہ نفسیاتی جبلت کے زیراثر اہل پشاور کے حافظے میں محفوظ ایسی آفات و بلیّات‘ وقت اور چہرے بدل بدل کر اور اُس وقت تک ظاہر ہوتی رہیں گی جب تک اِنہیں نظرانداز کرنے کی روش ترک نہیں کی جاتی۔ ”کتنا مشکل ہے زندگی کرنا …… اُور نہ سوچو تو کتنا آساں ہے (ایم علوی)۔“اہل پشاور سے جب بھی بات کی جائے تو اِن کی اکثریت ”ٹریفک کی روانی‘‘میں خلل اور تجاوزات پر ”نوحہ کناں رہتی ہے‘‘لیکن اگر اُن سے پوچھا جائے کہ ”قصور کس کا ہے؟“ تو آئیں بائیں شائیں یا خاموشی سننے کو ملتی ہے۔ مصروف شاہراہوں‘ چوراہوں یا راستوں کو مفلوج کرنے والوں کو ہر مرتبہ معاف کرنے کی روش ترک کرنا پڑے گی۔ زندگی وہی ہے جو رواں دواں رہے اور اِس رواں دواں خصوصیت کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ اور مؤجب رکاوٹ بننے والوں کے خلاف حسب قانون کاروائی ہونی چاہئے۔ اہل پشاور خود قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے اور سیاسی حکمران اپنے ہم عصروں کو اِس لئے معاف کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں اِن سے بھی اِسی قسم کے ”رحم کا سلوک“ کیا جائے۔ عام آدمی (ہم عوام) کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح مختلف النظریات رکھنے والے سیاست کا استحصال کرتے ہوئے اپنے اپنے مفادات کو ایک بنائے ہوئے ہیں بالکل اِسی طرح عوام کو بھی اپنا مفاد ایک بنانا ہوگا۔ بسااوقات خاموشی صرف جرم ہی نہیں بلکہ کمزوری کی علامت بھی ہوتی ہے! ٹریفک کے قوانین و قواعد کی روشنی میں دیکھا جائے تو کسی بھی شاہراہ‘ چوراہے اور راستے راہداری پر ٹریفک کا بہاؤ معطل یا متاثر کرنا قانوناً جرم ہے اور اِس جرم کا اِرتکاب کرنے والوں کو بخوبی علم ہے اُن کے خلاف لیکن جہاں شہری اُور قانون خاموش ہو اور جہاں علی الاعلان شہر کی آمدورفت اُور شہری زندگی کا انحصار شاہراہوں پر صرف ٹریفک ہی نہیں بلکہ شہر کی نبض روک دی جائے وہاں بہتری کی گنجائش (صورت) نکلنا مشکل ہے۔ ”اُور تو کوئی نہیں چشم تماشا کا مجیب …… ایک حیرت ہے جو خاموش تماشائی ہے (ماہر قریشی بریلوی)۔“گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت کی مرکزی اور ذیلی شاہراہوں پر ٹریفک کا غیرمعمولی ہجوم رہا۔ دن کے آغاز پر گھروں سے نکلے والے حسب معمول شام گئے تک بھی واپس نہ پہنچ سکے۔صرف پشاور کے شہری و مضافاتی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ ضلع بھر میں ٹریفک جام رہا جس کے باعث بالخصوص تعلیمی اداروں اور ملازمت پیشہ افراد کے معمولات متاثر ہوئے۔ گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ‘ رنگ روڈ‘ چارسدہ روڈ‘ یونیورسٹی روڈ‘ جمرود روڈ‘ سٹی سرکلر روڈ اور ملحقہ دیگر شاہراہوں پر منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوا۔ اِس موقع پر ٹریفک پولیس کی کوئی بھی تدبیر کارگر ثابت نہ ہو سکی۔  لیکن ایک مرتبہ پھر …… رات گئی بات گئی! ”کام کچھ تو کیجئے اپنی بقا کے واسطے …… انقلابی نام سے تو انقلاب آتا نہیں (احیا بھوجپوری)۔“