پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں اضافہ

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 2 ماہ کے دوران 4 مرتبہ اضافے کی وجہ عالمی منڈی میں قیمتوں کا اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے سولہ اکتوبر کو جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ڈیزل کی قیمت میں 12 روپے 44 پیسے‘ پیٹرول کی قیمت میں 10روپے 49پیسے اور مٹی کا تیل 10روپے 95 پیسے اضافے جیسا غیرمعمولی ردوبدل کیا گیا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ کسی حکومتی کامیابی کا اعلان کرنے کے لئے متعلقہ وزارت کا وزیر یا وفاقی کابینہ کے اراکین اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہیں لیکن جب وفاق کی منظوری سے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوتا ہے تو اِس کیلئے صرف اور صرف متعلقہ وزارت ہی کا اعلامیہ سامنے آتا ہے جبکہ عوام کے منتخب نمائندے جنہیں قانون ساز ایوانوں تک پہنچایا جاتا ہے وہ کچھ اِس طرح مصروف ہو جاتے ہیں کہ جیسے اُنہیں خبر ہی نہ ہو یا جیسے اُن کا اِس سے کوئی تعلق ہی نہ ہو! پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا کیونکہ اشیائے خوردونوش کی نقل و حمل سے لیکر آمدورفت کے اخراجات میں اخراجات میں اضافے کا براہ راست اثر اُن ذخیروں پر بھی پڑتا ہے جو گوداموں میں پڑے ہوتے ہیں یعنی اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو تو اِس کا اثر نہیں ہوتا لیکن معمولی اور حالیہ غیرمعمولی اضافے کا فوری اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ حکومت عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مجبور ہوئی اور اِسے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا تو کیا وجہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی‘ ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ جیسے 3 محرکات پر قابو پانے میں  بھی وقت لگ رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 137 روپے 79 پیسے ہو گئی ہے جبکہ ایک لیٹر مٹی کے تیل کی قیمت 110 روپے 26 پیسے ہو گئی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 134 روپے 48پیسے اور لائٹ ڈیزل آئل 108 روپے 35 پیسے فی لیٹر ہو چکا ہے۔ وزارت ِخزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں یہ کہا گیا ہے کہ ”عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں قریب پچاسی ڈالر فی بیرل کی بلند سطح پر ہیں جو اکتوبر دوہزاراٹھارہ کے بعد سے ریکارڈ قیمت ہے۔“ لیکن جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایک ڈالر اور منفی تک پہنچ گئی تھیں تو تب عوام کو کونسا ریلیف ملا تھا جو اب پچاسی ڈالر فی بیرل ہونے جیسا جواز پیش کیا جا رہا ہے۔ اُمید یہی ہے کہ پیٹرول کی قیمت فی ڈالر یعنی 170 روپے فی لیٹر کے مساوی کر دی جائے گی کیونکہ اِس درآمدی جنس پر سبسڈی ختم کرنے کیلئے حکومت پر اُن مالیاتی اداروں کا دباؤ ہے‘ جو قرض دیتے ہیں اور اپنے قرض کو ایسی معاشی اِصلاحات سے مشروط کرتے ہیں‘ جس میں حکومت کسی درآمدی جنس (پیٹرول‘ بجلی‘ گیس‘ گندم‘ چینی‘ گھی‘ خوردنی تیل‘ خشک چائے‘ دالیں وغیرہ) کی وہی قیمت وصول کرے‘ جو قیمت ِخرید ہوتی ہے۔ یہاں مسئلہ مالیاتی اور انتظامی نظم و ضبط کا ہے کہ حکومتی اداروں کے اخراجات اِس قدر ہوتے ہیں کہ کسی درآمدی جنس کی قیمت سو فیصدی نہیں بلکہ کئی سو فیصدی تک زیادہ مقرر کرنے کے باوجود بھی قومی خزانے کا خسارہ پورا نہیں ہوتا۔ سیاسی فیصلہ سازوں کے اخراجات خسارے کی آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں اور یوں مہنگائی کا آلاؤ آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ مہنگائی اگر عالمی عمل ہے جس کے سامنے دنیا بے بس اور عاجز دکھائی دیتی ہے‘لمحہئ فکریہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں مسلسل اضافہ کے نہ صرف روایتی عوامل ہیں بلکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک (آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز OPEC تنظیم کے رکن ممالک) کے مفادات‘ کورونا وبا جیسا مشترکہ عمل اور تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کی کاروباری حکمت عملیوں کا عمل دخل بھی بڑی حد تک شامل ہوتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ کورونا وبا کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ ہر ملک اپنی برآمدات سے زیادہ مالی فائدہ اُٹھا کر کورونا وبا کے باعث معاشی بحران سے نکلنا چاہتا ہے اور اِن تیل پیدا اور اِس کا کاروبار کرنے والے اداروں کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ قیمتوں سے کس قدر متاثر ہوگی۔ تصور کریں کہ قدرت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات (بشمول گیس) جیسی دولت عطا کی گئی ہے اور جن ممالک کو یہ نعمت حاصل ہے وہ دیگر ممالک کی ضروریات پوری کرنے میں استحصال کو اپنا پیدائشی حق سمجھ بیٹھے ہیں۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ایک محرک جس نے اہم کردار ادا کیا ہے وہ امریکی پالیسی ہے۔ اس مرتبہ تیل کی عالمی مارکیٹ میں ایک حیران کن کہانی سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ میں تیل پیدا کرنے والوں نے بہت نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جہاں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود تیل کی پیداوار میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ تیل کی قیمت میں اضافہ مہنگائی کا باعث بنتا ہے کیونکہ بہت سی مصنوعات کیلئے پیٹرولیم بطور خام مال استعمال ہوتا ہے اور اس میں بنیادی طور پر پیٹرول اور ڈیزل جو بنیادی طور پر نقل و حمل کیلئے ایندھن لیکن اِن سے بجلی کی پیداوار بھی ہوتی ہے۔ اِسی طرح کھاد‘ پلاسٹک‘ لوہا‘ سیمینٹ اور دیگر صنعتیں بھی پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کرتی ہیں الغرض زراعت (مقامی پیداوار) سے لیکر درآمدات اور پیداواری صنعت تک زندگی کا کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں جو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر نہ ہوتا ہو اور اِس سے ”انتہائی غربت“ میں اضافہ نہ ہو۔ حرف آخر: جون 2021ء میں عالمی بینک نے کہا تھا کہ ”پاکستان کی 39.2 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔“ اِس مرحلہئ فکر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچئے کہ غربت سے متعلق مذکورہ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد 2 ماہ میں اگر 4 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو کیا پاکستان میں ’غربت اور انتہائی غربت کی شرح‘ میں اضافہ ہو گا یا کمی؟۔ غربت کی شرح میں کمی لانے کے لئے عام آدمی کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانا ضروری ہے اور اسی سے مراد غربت کی شرح میں کمی ہے تاہم یہ کام خالی نعروں اور وعدوں سے نہیں ہوسکتا بلکہ عملی طور پر کچھ کر دکھانا ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کا تعلق عالمی کساد بازاری اور معیشت سے جڑا ہوا ہے تاہم ان کے اثرات کو کم سے کم کرنا اور عوام کو مختلف صورتوں میں ریلیف فراہم کرنا بھی ضروری ہے جس کی طرف فی الفور توجہ دینی ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں کورونا وباء سے متاثرہ معیشت کو بحال کرنے کے لئے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں تاہم حکومت کو یہ چیز مدنظر رکھنی ہوگی کہ حکومت کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور تھوڑا رہتا ہے اس لئے موجودہ حالات میں مہنگائی سمیت جتنے عوامل ہے یہ سب آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہونگے اب یہی ایک سال یعنی2022ء میں اگر عملی طور پر کچھ اقدامات نہ کئے گئے تو پھر سمجھو کہ عوامی رائے بہت کچھ بدل سکتی ہے اور 2023ء جو الیکشن کا سال ہے سیاسی حلقوں کے لئے غیر متوقع نتائج لا سکتا ہے۔