کورونا وبا سے ممکنہ بچاؤ کیلئے تیسری خوراک (بوسٹر ڈوز) اُن افراد کو لگوانے کا مشورہ دیا جاتا ہے جن کی عمریں 65 سال سے زیادہ ہوں یعنی اُن کے جسم میں بیماریوں سے مقابلہ کرنے کے قدرتی مدافعاتی نظام کمزور ہو۔ اِس کے علاوہ اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے وہ لوگ جنہیں کسی مرض کی وجہ سے لمبے عرصے تک انتہائی نگہداشت میں رہنا پڑا ہو۔ یہ مرض کورونا وبا بھی ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح اٹھارہ سال سے زائد عمر کے وہ لوگ جن کا جسمانی مدافعاتی نظام کورونا کی پہلی 2 ویکسینز لگنے کے باوجود تاحال مضبوط نہیں اور اُن میں کورونا وبا کی ہلکی پھلکی علامات نمودار وقتاً فوقتاً نمودار ہوتی رہتی ہیں یا وہ کسی دوسرے مرض سے متاثر ہیں جس میں اُنہیں افاقہ نہیں ہو رہا تو ایسے افراد کو تیسری ڈوز (تھرڈ ویکسین) لگوانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ویکسین لگوانے کی سفارش چوتھی قسم کے اُن لوگ کو بھی کی جاتی ہے جو ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں کورونا وبا یا دیگر امراض سے متاثرہ (مصدقہ معلوم) مریض علاج معالجے یا کسی دوسری غرض سے رجوع کرتے ہیں۔ پانچویں قسم کے جن لوگوں کیلئے تیسری ڈوز کو لازمی قرار دیا جاتا ہے اُن کا تعلق بھی اٹھارہ سال کی عمر سے زیادہ طبقے سے ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی رہائشگاہ یا قیامگاہ پر کورونا وبا یا دیگر کسی مرض سے متاثر مریض موجود ہوں۔ پینسٹھ سال سے زیادہ ادھیر عمر اور اٹھارہ سال سے زیادہ ایسے افراد جن کا سماجی تعلق (عمومی میل جول) کورونا وبا یا دیگر امراض سے متاثرہ افراد سے ہو اُنہیں پہلی 2 ویکسینز کے بعد 3 ویکسین بھی اُسی قسم کی لگوانی چاہئے جو پہلی 2 لگوائی تھیں اور اِس سلسلے میں نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈ میں اندراج سے مدد لی جا سکتی ہے۔ایک ایسے ماحول میں جبکہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں کورونا سے ممکنہ بچاؤ کی پہلی ویکسین لگوانے والوں کی شرح بھی کم ہے اور جہاں ویکسین کے غلط اندراج کروانے کے چند کیسز بھی سامنے آئے ہیں وہاں تیسری ویکسین (بوسٹر ڈوز) کی بات کرنا مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے لیکن اگر خیبرپختونخوا کو اِس بات کا یقین دلایا جائے اور اُن کے سامنے ملک کے دیگر صوبوں کے اعدادوشمار بطور مثال پیش کئے جائیں تو کورونا ویکسین لگوانے کیلئے یقینا آمادگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے آئی ایک خبر کی تفصیلات سے خیبرپختونخوا کے باسیوں کو آگاہ ہونا چاہئے جہاں حال ہی میں کئے گئے عوامی جائزے (سروے) سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کورونا ویکسین لگوانے والے 91فیصد لوگ ایسے ہیں‘ جو ضرورت پڑنے پر اِس کی تیسری ویکسین (بوسٹر ڈوز) لگوانے کیلئے تیار ہیں۔ اِس سلسلے میں حکومت ِپنجاب نے عالمی اداروں (برطانوی وزارت خارجہ‘ کامن ویلتھ اور آکسفورڈ پالیسی مینجمنٹ) کے اشتراک سے جائزہ لیا اور کورونا ویکسین لگوانے والے افراد سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے اُن سے بات چیت کی۔ اِس عوامی جائزے میں 79فیصد مردوں سے بات چیت کی گئی جن میں 84فیصد کا تعلق شہری علاقوں سے تھا اور 46فیصد افراد کی عمریں چالیس سے اُنچاس سال کے درمیان تھیں جبکہ چھیانوے فیصد افراد شادی شدہ تھے۔ سروے میں جوابات دینے والے تمام افراد نے اعتراف کیا کہ ویکسین لگوانے کے بعد انہوں نے کسی طرح کے بڑے منفی اثرات (سائیڈ ایفکٹس) کا سامنا نہیں کیا تاہم اِن میں سے صرف چار افراد نے بتایا کہ ویکسینیشن کروانے کے باوجود ان میں کورونا کی معمولی علامات ظاہر ہوئیں ہیں۔ ویکسینیشن کروانے کے باوجود کورونا کی علامات کا اظہار کرنے والے چار فیصد افراد میں سے صرف دو فیصد نے بتایا کہ ان میں پی سی آر ٹیسٹ کے بعد کورونا وبا کی تشخیص ہوئی جب کہ دو فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹیسٹ نہیں کروائے البتہ انہوں نے ازخود کورونا کی معمولی علامات کو نوٹ کیا۔ سروے میں شامل 91فیصد افراد نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ تیسری ویکسین (بوسٹر ڈوز) بھی لگوائیں گے جب کہ چھیاسی فیصد لوگ کورونا ویکسین لگوانے کے فیصلے سے مطمئن دکھائی دیئے۔ سروے کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ستاسی فیصد لوگوں نے بتایا کہ وہ دوسروں کو ویکسین لگوانے کا مشورہ دیں گے جب کہ ایک فیصد افراد نے کہا کہ کورونا ویکسین نے اُن پر بعض منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور وہ اِس سے خوفزدہ ہیں۔ ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا کہ ویکسین کیوں لگوائی؟ اور سوال کے جواب میں 80فیصد افراد نے بتایا کہ انہوں نے اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی اور حفاظت کی خاطر ’ویکسی نیشن‘ کروائی ہے۔ سروے میں شامل 54فیصد افراد کا بیان تھا کہ انہوں نے ذرائع ابلاغ اور حکومتی دباؤ کی وجہ سے ویکسینیشن کروائی جب کہ 38فیصد کے مطابق انہوں نے اپنی سماجی ذمہ داری کے تحت ویکسین لگوائی۔ اسی طرح جائزے میں پنجاب حکومت کو ویکسینیشن کیلئے شناختی کارڈ نمبر‘ موبائل فون نمبر‘ گھر کا پتہ اور دیگر کوائف فراہم کرنے کی پابندی (شرط) بھی نرم یا ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ لوگ مذکورہ معلومات فراہم کئے بغیر ہی ویکسین لگوانے پر آمادہ ہوں۔ توجہ طلب ہے کہ صوبہ پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی اِس قسم کے جائزے (سروے) کی ضرورت ہے جس کے نتائج کمی بیشی کے ساتھ ایک جیسے ہی برآمد ہوں گے یہاں بھی دیہی علاقوں کی نسبت شہروں میں ویکسین زیادہ لگوائی گئی عالمی اداروں کی جانب سے دی جانے والی یہ تجویز اپنی جگہ اہم ہے کہ کوورنا ویکسین کے ساتھ لازماً جمع کئے جانے والے کوائف میں نرمی دی جائے اور ویکسین لگوانے والوں کے مراعات کا اعلان کرنے سے بظاہر ناممکن دکھائی دینے والا ہدف باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔