خوشی کی خبر یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری سکول کھولنے کا اعلان کردیا ہے طالبان کے وفود مختلف ممالک کے خیر سگالی دورے بھی کر رہے ہیں تاکہ ان ممالک کے رہنماؤں کے ذہن میں اگر کوئی غلط فہمی ہو تو وہ اسے دور کر سکیں اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ ان ممالک کی طرف سے زندگی کے مختلف شعبوں میں افغانستان کیلئے بیرونی امداد کے امکانات کا احاطہ بھی کر رہے ہیں۔ افغانستان کی سیاست میں چونکہ بھارت بری طرح پٹ چکا ہے لہٰذا وہ اپنے ہاتھ پیر مار رہا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ ایک مرتبہ پھر افغانستان سے اپنے تعلقات بحال کرے۔ چین سے بھارت اس قدر گھبرایاہوا ہے کہ بوکھلاہٹ کے عالم میں اس نے روس سے جدید ترین ایس400 ائیر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا عندیہ تو دے دیا پر اسے جب یہ پتہ چلا کہ یہ ائیر ڈیفنس سسٹم تو چین کب کا روس سے خرید چکا ہے اور اسے چینیوں نے پہلے ہی سے سٹریٹجک مقامات پر نصب کر دیا ہے تو بھار تی حکمرانوں کو تب جا کر اس بابت ہوش آ یا ہے اور اب وہ اس معاملے پر دوبارہ سوچ بچار کر رہے ہیں۔ 1947 سے لے کر آج تک کے سیاسی حالات پر اگر ہم ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر کئی مقامات میں بھارت کو سفارتی دھچکے ملے ہیں اور اس کی سفارتی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے روس کے ساتھ کسی زمانے میں اس کے تعلقات بڑے خوشگوار تھے آج وہ کافی حد تک خراب ہو چکے ہیں کسی دور میں چینی ہندی بھائی بھائی کا نعرہ لگا کرتا تھا آج چین اور بھارت ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن رہے ہیں چین کے ساتھ واقع سکم‘ ارونا چل پردیش‘ بھوٹان‘نیپال‘ لداخ اور تبت کے مقامات پر بھارت کی جو سرحدات چین سے ملتی ہیں وہ اب اس کے ہاتھ سے دھیرے دھیرے نکلتی جا رہی ہیں اور وہاں چین اپنے قدم جما رہا ہے اگلے روز روس کے پانیوں میں چین اور روس کے بحری جنگی جہاز مشترکہ فوجی مشقیں کر رہے تھے کہ اس دوران ایک امریکی بحری جہاز اس علاقے میں مبینہ غلطی سے گھس آ یا جسے روسی جہازوں نے گھیرے میں لے کر اپنے علاقے سے باہر دھکیل دیا ان واقعات کا ذکر ہم نے یہ حقیقت بتلانے کیلئے کیا کہ کرہ ارض کے کئی مقامات پر اس وقت جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں صرف ماچس کی تیلی دکھانے کی دیرہے آ گ خود بخود بھڑک اٹھے گی۔آج دنیا کو صلح جو دور اندیش مدبرانہ صلاحیت رکھنے والے رہنماؤں کی ا شدضرورت ہے نہ کہ مودی جیسے تنگ نظر لیڈروں کی کہ جن کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کی انتہا پسندی پر مبنی پالسیاں خود ان کو اور ان کے ملک کو جلا کر راکھ کر سکتی ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ آج کی دنیا میں میڈیا چاہے وہ الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا بے پناہ اہمیت کا حامل ہو گیا ہے دنیا کے تقریبا ًتقریباً تمام ممالک میں ہمارے جو سفارت خانے ہیں ان میں پریس اتاشی کی پوسٹنگ کی جاتی ہے‘غیر ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں میں سفیر کے بعد انتظامی اور سیاسی لحاظ سے اس کی دوسری پوزیشن ہوتی ہے کیونکہ اس نے جس ملک میں وہ تعینات ہے اس کے میڈیا پر کڑی نظر رکھنی ہوتی ہے کہ اس میں ہمارے ملک کے مفادات کے خلاف کوئی ایسی خبر شائع نہ ہو کہ جس سے بین الاقوامی سطح پر ہمارے ملک کی سبکی ہوتی ہو وہ پریس اتاشی کامیاب تصور کیا جاتا ہے کہ جس نے اس ملک کے میڈیا کے کرتا دھرتوں سے اچھی ورکنگ ریلیشن شپ بنا رکھی ہو کہ جہاں وہ تعینات ہے اور وہ باقاعدگی سے وہاں کے اخبارات میں ہر مسئلے پراپنے ملک کے موقف کی بھرپور انداز میں ترجمانی کرتا ہو اس لئے موجودہ دور میں ان کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی جو پہلے بھی مستعد ہیں تاہم اب انہیں زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔