طالبان کیلئے قیام امن ترجیح اول 

افغانستان میں ایک ہفتے کے دوران مساجد میں دوخود کش دھماکوں کے نتیجے میں 96افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ گذشتہ جمعہ کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز میں نماز جمعہ کے دوران مسجد میں خود کش دھماکہ ہوا تھا جس میں پچپن نمازی شہید اور ستر سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ابھی قندوز دھماکے کے زخم تازہ تھے کہ اگلے جمعہ کے روز قندہار کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکہ ہوا۔جس میں چالیس سے زائد افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ایک کالعدم شدت پسند تنظیم نے دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ پچھلے دنوں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بیان آیاتھا کہ داعش سے نمٹنا طالبان کیلئے مشکل نہیں، اس کے کارندے افغان شہری ہیں باہر سے کوئی اس تنظیم میں شامل نہیں، ملک بھر میں داعش کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیاگیا ہے اور جلد ہی ان کا مکمل صفایاکیاجائے گا۔15اگست کو جب سے طالبان نے کابل میں عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ اس وقت سے اب تک افغانستان میں داعش نے چار مرتبہ بڑا حملہ کیا ہے۔ 3 اکتوبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد کے باہر دھماکے کے نتیجے میں جانی نقصانات ہوئے تھے۔طالبان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ دہشت گردوں کا تعاقب کررہی ہے اور ہماری افواج داعش کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں داعش کے کئی کارکنوں کو گرفتار کیاگیا اور ان کے کئی محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کر دیاگیا ہے جبکہ ان کے کئی حملوں کو بے اثر کر دیا ہے۔افغانستان میں پے در پے خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے طالبان حکومت کیلئے نہ صرف داخلی سلامتی کی صورتحال گھمبیر ہوگئی ہے بلکہ کابل حکومت پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھنے کا امکان ہے۔ طالبان حکومت نے عالمی برادری سے خواتین اور مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دی ہے۔امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے طالبان پر اپنے وعدے پورے کرنے کا مسلسل تقاضا کیاجارہا ہے۔ افغانستان میں بدامنی پیدا کرنے اور طالبان حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں جن قوتوں کے مفادات پوشیدہ ہیں ان دھماکوں کے پیچھے انہی قوتوں کا ہاتھ ہوسکتاہے۔کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو ہوئی ہے۔ بھارت نے وہاں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے نام پر پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ کابل میں سفارت خانے کے علاوہ افغانستان کے آٹھ شہروں میں اپنے قونصل خانے قائم کئے تھے جہاں مبینہ طور پر شدت پسندوں کو تربیت اور مالی امداد فراہم کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کیاجارہا تھا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے بھارت کا سارا کھیل تلپٹ ہوگیا۔مودی حکومت کو افغان پالیسی کی وجہ سے اندرون ملک شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ بالواسطہ دیگر شدت پسند تنظیموں کے ذریعے افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ اور نیٹو بھی افغانستان میں اپنی فوجی شکست کی خفت مٹانے اور طالبان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بھی اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہوسکتے ہیں‘افغانستان میں امن کا قیام نہ صرف طالبان حکومت بلکہ پورے خطے کیلئے ناگزیر ہے۔ اس لئے طالبان حکومت کو شدت پسندی پر قابو پانے اور پائیدار امن کے قیام پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔ ملک سے شدت پسندی ختم کرنے کیلئے موثر قانون سازی، سزاؤں پر عمل درآمد کے ساتھ طالبان کے پاس اپنے ہمدرد ممالک پاکستان، ترکی اور چین سے تکنیکی مدد حاصل کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ اس وقت طالبان حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں امن کے قیام کو یقینی بنائے اس کے ساتھ عالمی برادری کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مد میں طالبان کی کوششوں میں ہاتھ بٹائے۔