ختمی مرتبت حضور پُرنور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ِمبارکہ کا درخشاں اور سب سے نمایاں پہلو ”دعوت و تبلیغ“ رہا‘ جس کے تین ادوار پوری اسلامی تاریخ کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور اگر اِن تین ادوار کو سمجھ لیا جائے تو نہ صرف اسلام بلکہ اِس کا مقصد بھی واضح ہو جائے گا۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ِطیبہ عصر حاضر میں دعوت و تبلیغ کرنے والوں کیلئے بھی رہنما اصول ہے اور اِسے نصاب تعلیم کا حصہ بنا کر نوجوان نسل کو اسلام کے اُس ورثے سے روشناس کرایا جا سکتا ہے جو صرف اسلام کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا اثاثہ ہے۔دعوت و تبلیغ کا پہلا دور 3 برس کا عرصہ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رازداری کے ساتھ یہ فریضہ ادا فرمایا۔ دعوت و تبلیغ کا دوسرا دور اُس وقت شروع ہوا جب خفیہ دعوت کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوئی۔ اس کے بعد اللہ تعالی ٰ نے سورہئ شعرأ میں آیت مبارکہ نازل فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی پر کھڑے ہو کر قبیلہ قریش کو پکارا اور اُنہیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت دی۔ دعوت و تبلیغ کا تیسرا دور اعلان نبوت کے چوتھے سال شروع ہوا‘ جس کا ذکر سورہئ حجر میں محفوظ ہے۔ اِس اعلانیہ دعوت و تبلیغ کے جواب میں اہل قریش نے ستم ظریفیاں کیں۔ کفار مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اورلڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے جیسی جسارت و ہمت تو نہ کر سکے مگر طرح طرح کی تکالیف اور ایذا رسانیوں سے آپؐ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ یہاں تک کہ شعب ابی طالب میں محاصرے کی نوبت آئی جو مسلمانوں کا ”مکمل سوشل بائیکاٹ“ تھا۔ قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کئے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک اِن سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان اورچچا ابو طالبؓ کے ساتھ شعب ابی طالب نامی گھاٹی میں 3 سال تک محصور رہے جو انتہائی سخت اور کٹھن مرحلہ تھا۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب حضرت ابوطالبؓ اُور غمگسار زوجہ مطہرہ اُم المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی جس کا اتنا صدمہ گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سال کو ”عام الحزن (غم کا سال)“ قرار دیا۔ نبوت کے گیارہویں سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج میں پنج گانہ نماز فرض ہوئی۔ نبوت کے بارہویں سال قبیلہ اوس و خزرج کے بارہ افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی اور یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔ نبوت کے تیرہویں سال مدینہ کے ستر مردوں اور بیس عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی‘ جسے عقبہ ثانیہ کہتے ہیں اور پھر اِس کے بعد ہجرت ِمدینہ سے اِسلام کا ’نیا دور‘ شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام کیا۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر فرمائی‘ اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کرام اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں مدینہ آئے تو کفار مکہ نے یہاں بھی سکھ کا سانس لینے نہ دیا۔ اللہ کی طرف سے یہ حکم تھا کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور کفار و مشرقین کی ایذاؤں پر صبر و تحمل‘ برداشت کا مظاہرہ کیا جائے‘ تو اسی لئے مسلمانوں نے اپنے دفاع میں ہتھیار نہیں اٹھایا لیکن ہجرت کے بعد جب کفار و مشرقین مسلمانوں کے جانی دشمن ہو گئے اور ان کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ تب رب ذوالجلال نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ مسلمانوں سے جنگ کی ابتدأ کریں اُن سے لڑا جائے اور یہیں سے دعوت و تبلیغ کے ساتھ جہاد کا موڑ آیا لیکن یہ اپنے دفاع کیلئے تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب دنیائے انسانیت کو نظام عالم کے نئے دور کے آغاز پر خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے بالخصوص اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعے بالعموم نیا عالمی نظام عطا کیا گیا تو اِس موقع پر ضروری تھا کہ گزشتہ تمام نظاموں (جاہلانہ امور) کو منسوخ کر دیا جاتا اور ایسا کرتے ہوئے زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعلان ہوا (ترجمہ) ”خبردار‘ جاہلیت کا سارا (ظالمانہ اور استحصالی) نظام میں نے اپنے پاؤں سے روند ڈالا ہے اور آج سے نظام جاہلیت کے سارے خون (قصاص‘ دیت اور انتقام)کالعدم ہیں اور آج سے نظام جاہلیت کے سارے سودی لین دین بھی ختم تصور ہوں گے۔“ ان اعلانات کے بعد اس امر میں کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی کہ خطبہ حجۃ الوداع فی الحقیقت ”نئے عالمی نظام“ کا اعلان تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین سے یہ امر واضح ہے کہ اسلام دین امن و محبت اور رحمت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون‘ تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں حرام کر دی ہیں اور ان چیزوں کو ایسی عزت بخشی ہے جو عزت تمہارے اس شہر میں اس مہینہ اس دن کو حاصل ہے۔ کیا میں نے پیغام حق (رسالت) پہنچا نہیں دیا؟ سبھی نے بیک زبان جواباً عرض کیا جی ہاں ضرور۔“ اس واضحیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاضرین کو تلقین فرمائی۔ ”سنو جو لوگ یہاں موجود ہیں اُنہیں چاہئے کہ یہ احکام اور یہ باتیں اُن لوگوں تک پہنچا دیں جو اِس وقت یہاں موجود نہیں‘ ممکن ہے کہ جو یہاں موجود نہیں تم سے زیادہ سمجھنے اور اِنہیں محفوظ و عمل کرنے والے ہوں۔“ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ِطیبہ کے آخر میں ایک نمایاں موقع پر عالم انسانیت کو امن کا پیغام دیا اور اس امر کی پابندی پر زور دیاکہ اپنے عمل و کردار سے قیام امن کو ہر سطح پر ممکن بنایا جائے۔ ”یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ البَشَر…… مِن وَجھِکَ المْنِیرِ لَقَد نْوِّرَ القَمَر …… لَا یْمکِنْ الثَّنَاءْ کَمَا کَانَ حَقَّہ …… بعد اَز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر (اے صاحب جمال‘ اے سرورِ ِبشر: آپ کے روشن چہرہئ مبارک سے قمر روشن ہوا: ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا: اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کی ہستی کائنات میں بزرگ و برتر ہونا توحید و رسالت کا قصہئ مختصر ہے)۔