پشاور کے مسائل اور کے حل سے متعلق ہر کوشش معلوم نہیں کیوں ناکام ثابت ہوتی ہے اس کی وجوہات یہ بات عام آدمی (ہم عوام) کو تو سمجھ آ رہی ہے لیکن اگر کوئی اسے ایک مثال سے سمجھنا چاہے تو یہ پورا معمہ حل ہو سکتا ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں معمولی سی بات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے یا دوسری صورت میں کسی مسئلے کو چھپایا نہیں جا سکتا بلکہ وہ سامنے آکر رہتا ہے چاہے کتنی ہی چھوٹی غفلت کیوں نہ ہو۔ ان دنوں سوشل میڈیا پرایک منٹ سے بھی کم ایک ویڈیوکا چرچا ہے کہ شبقدر سے ایک سادہ لوح دیہی نوجوان بیش قیمت مرغی فروخت کرنے کیلئے پشاور آیا‘اور اس بازار کا رخ کیا جہاں عرصہ دراز سے مرغ اور دیگر پرندے فروخت ہوتے ہیں،یہاں نوجوان کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرغی فروخت کرنے کیلئے اُس نے جو ’قانون شکنی‘ کی اُس کا جرمانہ 500 روپے ادا کرنا پڑے گا اور مذکورہ جرمانہ ادا کرنے اور مرغی واگزار کرانے کیلئے اُسے ایک تحریری درخواست (معافی نامہ) بھی دینا پڑے گی۔ شبقدر سے پشاور آیا مہمان حسب ِحکم درخواست لکھ کر لاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرغی تو لاپتہ ہو چکی ہے‘ جس کی کم سے کم قیمت 5 ہزار روپے تھی! اب یہاں سے اِس کہانی کا درد ناک انسانی پہلو شروع ہوتا ہے۔ مذکورہ نوجوان شبقدر سے پشاور آتا ہے تاکہ (مبینہ طور پر) مرغی فروخت کر کے اپنے بیمار کیلئے ادویات وغیرہ خرید سکے‘ مذکورہ نوجوان کی دکھ بھری کہانی (54سیکنڈ کی ویڈیو) ’سوشل میڈیا‘ پر نہ صرف اہل پشاور بلکہ دنیا بھر میں دیکھنے والے صارفین کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس غریب شخص کے مسئلے کو حل کرنے کامطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک ایسا شہر جس کا کوئی ایک بھی بازار تجاوزات سے پاک نہیں وہاں بغل میں دبائی ہوئی ایک مرغی جیسی قانون شکنی (تجاوزات) کے خلاف اس قدر ”سخت کاروائی“ اپنی ذات میں تعجب خیزہے۔ یوں ’ایک دفعہ‘ کا نہیں بلکہ یہ بار بار کا معمول بن چکا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اِس قسم کے واقعات پشاور کی بدنامی کا کس قدر باعث بن رہے ہیں! اِس بارے میں ٹاؤن ون کے فیصلہ سازوں کا مؤقف ہے کہ …… ”مرغی سے متعلق کہانی اُن تاجروں کی سازش ہے جو انسداد تجاوزات کی مہم سے پریشان ہیں اور اِس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے سے وہ دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ اِس حقیقت سے انکار نہیں کہ مرغی چوری ہونے کی اِس انوکھی واردات (روداد) کو سوشل میڈیا پر پھیلانے والوں کے اپنے (سیاسی و غیرسیاسی) مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں طرف سے احساس کی ضرورت ہے، عوام کو جہاں قانون اور قاعدے کے احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے تو وہاں پر عوام کی تکالیف اور ان کے احساسات کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ قانون کا اطلاق سب پر برابر اور یکساں ہو۔ ہر چھوٹے بڑے تجاوزات والے کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔ تجاوزات کے خاتمے پر کسی کو اعتراض نہیں تاہم اس کی آڑ میں کوئی معصوم شہریوں کو تنگ کرے تو اس کا بھی نوٹس لینا چاہئے کہ ایسے اہلکار ایک اچھے اور نیک کام کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔