پاکستان میڈیکل کمیشن نے طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کے نئے تعلیمی سال میں داخلہ جات کیلئے قواعد وضع کئے ہیں جن کی رو سے ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز‘ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ درخواست گزار طلبا و طالبات کی اہلیت جانچنے کیلئے اُن کے انٹرویوز کرنے اور اُن کا ٹیسٹ لینے کے مجاز ہوں گے لیکن اِن ٹیسٹوں کے بارے میں میڈیکل کمیشن کو پیشگی آگاہ کیا جائے گا اور اِن کے نتائج و تفصیلات سے بھی میڈیکل کمیشن کو باخبر رکھا جائے گا۔ اِس سلسلے میں جاری کردہ ہدایات کے مطابق ٹیسٹ اور اِنٹرویوز میں ہر درخواست گزار کو یکساں وقت دیا جائے گا اور چونکہ دیگر میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز نے بھی انٹرویوز اور ٹیسٹوں کے اعلانات کر رکھے ہیں تو ایسی صورت میں جبکہ کوئی طالب علم ایک سے زیادہ کالجز کے ٹیسٹ دے رہا ہو تو اُسے مقررہ تاریخ کے علاوہ ٹیسٹ اور انٹرویو کا موقع دیا جائے گا۔ خاص بات یہ ہے کہ اگرچہ میڈیکل و ڈینٹل کالجز کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی تاریخ کو ٹیسٹ اور انٹرویوز کیلئے درخواست گزاروں کو طلب کر سکتے ہیں لیکن مذکورہ ٹیسٹوں کے مندرجات بارے میڈیکل کمیشن کو پیشگی آگاہ کرنا اور بعدازاں تفصیلات فراہم کرنے کی پابندی کی جائے گی۔ پاکستان میں طب کی تعلیم کیلئے اہلیت کے ایک سے زیادہ معیارات مقرر ہیں۔ سب سے پہلے داخلے کے خواہشمند طالب علم کو امتحانی بورڈ میں نوے فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرنا پڑتے ہیں جبکہ اِس مرتبہ بورڈ امتحانات نے نمبر دینے میں جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا اُس کی ماضی میں کوئی نظیر و مثال نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ اِس مرتبہ بورڈ امتحانات کے نتیجے میں 95 سے 100 فیصد نمبر حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی میڈیکل و ڈینٹل کالجز کی کل نشستوں سے زیادہ ہے! امتحانی بورڈز کے بعد ’میڈیکل اینڈ ڈینٹنل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ کے مرحلے (کسوٹی) سے گزرنا پڑتا ہے جس سے متعلق مختلف مقدمات الگ الگ عدالتوں اور مختلف صوبوں میں درج ہیں جبکہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے 18 اکتوبر2021ء کو ارسال کردہ ایک مراسلہ کے تحت تمام نجی میڈیکل کالجز کے پرنسپلز کو آگاہ کیا ہے کہ وہ داخلے کے خواہشمند طلبا و طالبات کے انٹرویوز اور ٹیسٹ لے سکتے ہیں تاہم ماضی کی طرح داخلوں کو متنازعہ ہونے سے بچانے اور اپنے خلاف عدالتی و محکمانہ کاروائیوں سے بچنے کیلئے نجی میڈیکل کالجوں کی اکثریت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی طالب علم کی مزید اہلیت جانچنے کیلئے نہ تو انٹرویوز کریں گے اور نہ ہی اُن کا ٹیسٹ لیا جائے گا بلکہ امتحانات کے نمبروں کی بنیاد پر میرٹ بنایا جائے گا جو کسی طالب علم کی اہلیت جانچنے کا مستند معیار ہے۔پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے 5 نکاتی ہدایت نامہ جسے 2021-22ء کے داخلوں کیلئے ’پروٹوکولز اور پالیسیز‘ کا عنوان دیا گیا ہے میں 2 ایسی ہدایات بھی شامل ہیں جس نے نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز کی انتظامیہ کو پریشان کر رکھا ہے۔ اِن میں پہلی ہدایت یہ ہے کہ کسی بھی طالب علم کا اُس کے والدین کے ہمراہ انٹرویو میں اُس کی مالی حیثیت کے بارے میں سوال و جواب نہیں ہوگا۔ عموماً ایسا ہوتا رہا ہے کہ نجی میڈیکل کالج داخلے کیلئے طلب کردہ درخواست گزاروں کی مالی حیثیت کا درست اور حقیقی تعین کرنے کیلئے اُن سے مختلف قسم کے سوال و جواب کرتے ہیں اور اِس کے بعد صرف اُنہی درخواست گزاروں کو کامیاب قرار دیا جاتا تھا جو پانچ سالہ طب کی تعلیم کی سالانہ فیس اور دیگر اخراجات (بارہ سے پندرہ لاکھ روپے) ادا کرنے کی مالی سکت رکھتے ہوں۔ یوں صرف مالی طور پر مستحکم طلبا و طالبات ہی کو داخلہ ملتا تھا۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے اِس مرتبہ مالی حیثیت (مجبوری) کے ممکنہ استحصال کو روکنے کیلئے ہدایات جاری کی ہیں لیکن طریقہئ کار وضع نہیں کیا کہ اگر کسی طالب علم کی مالی حیثیت کے سبب اُسے نجی میڈیکل یا ڈینٹل کالج میں داخلہ نہیں ملتا تو اِس مسئلے کا پائیدار حل کیا ہے۔ کیا ایسے طالب علم کو تعلیمی قرض نہیں دیئے جانے چاہیئں؟ نجی میڈیکل کالجز کیلئے باعث پریشانی دوسرا امر میڈیکل کمیشن کی یہ ہدایت ہے کہ اگر کوئی طالب علم داخلہ اہلیت حاصل کرنے کے بعد فیس کی ادائیگی تین ماہ تک نہ کر سکے تو اُس کی نشست منسوخ کر دی جائے لیکن اگر نجی میڈیکل کالجز اپنے طور پر داخلے منسوخ کرنا شروع کر دیں تو اُنہیں مالی نقصان ہو گا کیونکہ تعلیمی سال کا آغاز ہونے کے بعد کسی طالب علم کا داخلہ منسوخ کرنے کا مطلب پانچ سال تک فیسیں نہ ملنے کی صورت نقصان برداشت کرنا ہوتاہے۔ اگر نجی میڈیکل کالجز کو اِس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ فیسیں ادا نہ کرنے والوں کا داخلہ منسوخ کریں تو کیا اُنہیں یہ اختیار بھی ہے کہ ایک داخلہ منسوخ کرکے وہ کسی دوسرے (مالی طور پر مستحکم طالب علم) کا داخلہ کر سکیں گے؟ اِس بات کی ضمانت کون دے گا کہ تمام نجی میڈیکل داخلہ منسوخ کرنے کے اِس ممکنہ اختیار کا استعمال اپنے مالی مفاد کیلئے کرتے ہوئے اہلیت کا خون نہیں ہونے دیں گے؟ بنیادی بات یہ ہے کہ جب کسی طالب علم کی داخلے سے پہلے اُس کی مالی حیثیت معلوم نہیں کی جائے گی۔ اُسے یہ بھی اختیار ہے کہ وہ انشورنس (بیمہ) بھی نہ کروائے اور بروقت فیس نہ دینے کی صورت اُس کا داخلہ بھی منسوخ کر دیا جائے جس کے بعد وہ کسی دوسرے میڈیکل یا ڈینٹل کالج میں داخلہ حاصل کرنے کا مجاز بھی نہیں رہے گا تو کیا یہ حکمت ِعملی تضادات کا مجموعہ نہیں اور کیا اِس سے طالب علموں کے مفادات پر ضرب نہیں پڑتی!؟ پاکستان میڈیکل کمیشن کی تخلیق سے شروع ہونے والا عمل ہر مرحلے پر ایک نئے بحران کا جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی تعلیم اِس کے دیگر کام کاج (اَمور) کی درستگی اِنتہائی ضروری ہے‘ بصورت ِدیگر نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ طلبا و طالبات اور اُن کے والدین بھی پریشانی سے دوچار رہیں گے۔