رنگ پتے بدلنے لگتے ہیں 

موسم دھیرے دھیرے بدل رہا ہے سورج کی حدت اور شدت میں اب ایک ہلکی سی نرماہٹ شامل ہو گئی ہے،ہر چند یہ بدلاؤ دیر سے شروع ہوا ہے مگر پھر بھی غنیمت ہے ورنہ تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے موسم کو کسی کے آنے کا انتظار ہے اس لئے رک رک کر آگے بڑھتا ہے۔ وہ جوکہتے ہیں کہ،،
 کسی کے شام کا وعدہ ارے معاذ اللہ 
 ٹھہر ٹھہر کے ستاروں میں روشنی آئی
تو مظاہر بھی اپنے گرد و پیش سے لا تعلق نہیں رہتے، ہم جو وطن عزیز کے چار موسموں کی بات کرتے رہتے ہیں تو پت جھڑ بھی سرما کے ساتھ ساتھ ذرا فاصلہ سے آتا ہے اور ماہرین کے نزدیک سرما یا پت جھڑ کا آغاز ستمبر کے دوسرے پندر واڑے سے ہو ہو جاتا ہے، سمندر پار کے سیانے کہتے ہیں کہ مچھلی ان مہینوں میں کھانا چاہئے۔
جن مہینوں کے ناموں انگریزی حرف ”آر‘‘ آتا ہو(اردو میں ”ر‘‘ سمجھ لیں) گویا یہ سلسلہ ستمبر سے شروع ہو کر مارچ چلے جاتا ہے، لیکن یہ سب کتابی اور نصابی باتیں ہیں اب موسم کو اپنے کل کا آموختہ یاد نہیں رہا اور اس لئے بھی کیونکہ ہم زندگی کو اعتدال پر رکھنے والے ان موسموں سے بے نیاز اور بیگانہ ہو چکے ہیں، ابھی دو دن پہلے اسلام آباد میں بہت سے شاعر دوستوں کے ہمراہ جب میں مشاعرہ گاہ سے باہر نکلا تو وسیع آسمان میں پورے چاند کی ٹکیہ تیر رہی تھی، میں نے دیکھا کہ غیر شاعر کی بات چھوڑیں شاعر دوست بھی اسے نہیں دیکھ رہے تھے میں نے قریب سے گزرتے ہوئے بہت ہی عمدہ شاعر اور بے تکلف دوست احمد حسین مجا ہد کو بازو سے پکڑ کر روکا اور کہا، آج شب ماہتاب ہے نا، یوں ہم نے چاند کو مل کر دیکھا، چودھویں شب کے چاند کو میں نے کہا ں کہاں دیکھا، کیسے کیسے سیلی بریٹ نہیں کیا، اکیلے میں بھی دوستوں کے ساتھ بھی بلکہ ایک بار تو اکمل نعیم پشاور قلم قبیلہ کے دوستوں کو اپنے ایک دوست کے ہاں ملاکنڈ کی اور بھی لے گیا تھا محض اس لئے کہ شب ماہتاب مل کر دیکھیں غالباً ہم کوئی بارہ تیرہ دوست تھے اور ہم نے پانی میں سے پورے چاند کو پانی میں نکلنے کا مسحور کن منظر دیکھا تھا اور بعد کے زمانے میں تو بارہا میجر عامرکے نیسا پور میں اسے دریائے سندھ کی اوٹ سے طلوع ہوتا دیکھا، باہر کی دنیا میں اسے معروف جھیل ”ڈلن“ سے ڈینور کی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ایک بار بینگ ہمٹن کے ایک معروف مال سے باہر نکلے تو پارکنگ کی طرف کی طرف جاتے جاتے دور بہت دور افق سے چاند کو جھانکتے دیکھا تو میں رک گیا تھا۔عتیق صدیقی نے مڑ کر پوچھا خیر باشد میں نے اشارہ سے بتایا تو انہوں نے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں میں سمجھ گیا تھا کہ جو منظر اپنے شہر میں سرشاری دیتا ہے وہ دوسرے شہروں میں اداس کر دیتا ہے، گاڑی میں بیٹھے تو ہم دونوں چپ تھے، معلوم نہیں وہ کیا سوچ رہے تھے مجھے تو قتیل شفائی کا لکھا ہوا پاکستانی فلم دوستی کے گیت کا ایک انترا تنگ کرنے لگا تھا، شبنم پر فلمایا اور اے حمید کی موسیقی میں نور جہاں کا گا یاہوا یہ پورا گیت کمال ہے لیکن اس کا جو انترامجھے یاد آیا وہ کچھ یوں ہے۔
 اڑ رہا ہے پیار بدلیوں کے بھیس میں 
 یہ سماں بھلا کہاں پرائے دیس میں 
مگر موسموں سے لطف لینے کے لئے اب کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔یار لوگ تفریح کے لئے بھی اگر جاتے ہیں تو مری کی طرح بارونق شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں دور دور تک اداسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہو تا اور خود سے بات کرنے تک کا ہوش نہیں ہو تا۔فطرت سے بھلا بات کرنے کا تکلف کون کرے، اس لئے اگر موسموں نے اپنی چال بدل دی ہے تو ٹھیک ہی ہو رہا ہے اب کے بھی یہی ہوا اور موسم محض صبح سویرے قدرے خنک ہو تا ہے اور شام ڈھلے چلنے والی ہوا میں ہلکی سی نمی محسوس ہوتی ہے دیکھا جائے تو اکتوبر اپنے آخری ہفتے میں داخل ہو چکا ہے، مگر ابھی تو وہ ”گلابی“ سردی بھی شروع نہیں ہوئی، اس لئے ستمبر کے وسط سے آہستگی سے شروع ہونے والا پت جھڑ کا موسم ابھی تک رستے میں ہے، زرد اور
 نارنجی پتوں کی بہار ابھی کچھ دنوں میں دل لبھائے گی پھر باغات او ر درختوں سے گھری ہوئی شاہراہیں ان زرد پتوں سے بھر جائیں گی،سرما کی دھوپ دیر دیر تک ان کو تھپتھپاتی رہے گی اور کسی کسی شام اداسی اوڑھے ہوئے کچھ لوگ باغوں میں چہل قدمی کرنے جائیں گے تو ان کے قدموں تلے آنے والے یہ خشک پتے چرمرائیں گے، کم کم لوگ جوتے اتار کر ان سے بچتے ہوئے چلنے کی سعی کریں گے یا میری طرح خشک پتوں کی سیج پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں گے۔ایسے میں شام کی ہلکی ہوا سے ارد گرد سے اور درختوں سے کچھ بچے کچھے پتے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے چہرے پر یہاں وہاں گرنا شروع ہو جائیں گے۔ تو ایسے میں کیٹس اور مجاز کے کتنے ہی مصرعے دل میں دھمال ڈالنے لگیں گے، مجاز کو تو اس موسم میں ماہتاب بھی پیلا لگتا ہے تبھی تو وہ اپنے دل کے غموں سے پوچھتا پھرتا ہے۔
شہر کی رات اور میں ناشا د و ناکارا پھروں 
 جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارا پھروں 
 اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں 
 تو بات وہی ہے کہ اب موسم کو اپنے کل کا آموختہ یاد نہیں رہا اور اس لئے بھی کیونکہ ہم زندگی کو اعتدال پر رکھنے والے ان موسموں سے بے نیاز اور بیگانہ ہو چکے ہیں،یہ سب مجھے اس لئے بھی یاد آیا کہ گزشتہ کل ڈینور سے افراز نے اپنے بیک یارڈ کے درختوں کے کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جس میں ان درختوں نے اپنے سبز پیراہن کو نارنجی، قرمزی اور آتشیں پیراہن میں تبدیل کر دیا ہے ان کو دیکھنے سے نہ آنکھیں تھکتی ہیں نہ دل بھرتا ہے، ستمبر کے اواخر کی بارش ان درختوں کے پتوں کے رنگ بدلنا شروع کردیتی ہے میں نے پہلے پہل یہ خوشنما منظر کیپ کاڈ کے جزیرے میں اس وقت دیکھا تھا آج بائیس برس پہلے میں عتیق صدیقی کی دعوت پر وہاں چند دن گزارنے گیا تھا اور اس زمانے میں اس جزیرے پر ایک نظم بھی لکھی تھی جس کا ایک شعر ان درختوں کی تصویریں دیکھتے ہوئے رہ رہ کر یا د آ رہا ہے۔
رنگ پتے بدلنے لگتے ہیں 
جب ستمبرکا مینہ برستا ہے