مہنگائی کی شرح میں اضافہ

حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز پر مختلف برانڈز کے گھی کی قیمتوں میں 40سے 1090روپے تک کا اضافہ کردیا ہے۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ نئی قیمتوں کا اطلاق فوری طور پر ہوگیا ہے۔10لیٹر کوکنگ آئل کا کین 2500 روپے بڑھ کر 3590روپے کا ہوگیا۔ دوسری جانب حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں مزید 1روپے 39پیسے فی یونٹ کا اضافہ کردیاہے۔ وفاقی کابینہ نے بجلی مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔ وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ نواز شریف حکومت نے 45فیصد مہنگے بجلی گھر لگا کر قومی جرم کیا،ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے 2030ء تک پاکستان کو 3ہزار ارب روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں،شریف خاندان ایسے منصوبوں کے ذریعے عوام کے گلے میں پھندا لگا کر گیا اور ہم آج اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال گذر گئے حکومت کے پاس اب ڈیڑھ سال کی آئینی مدت باقی رہ گئی ہے۔ ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں حکومت نے سیاحت، ماحولیات، مواصلات اور دیگر شعبوں میں کافی کام کئے۔حکومت کو بہت سے چیلنجوں کا بھی سامنا رہا۔جن میں سب سے بڑا چیلنج کورونا کی عالمی وباء کا تھا۔جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، کاروبار سمیت زندگی کے تمام شعبے بری طرح متاثر ہوئے۔حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کے برعکس لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوگئے۔ پچاس لاکھ گھر بناکردینے کا منصوبہ بھی خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس عرصے میں مہنگائی کی شرح میں تقریباً دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عام آدمی کے لئے دو وقت پیٹ بھر کر کھانا محال ہوچکا ہے۔پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں صرف پندرہ بیس لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان میں سیاست دان، صنعت کار، کارخانے دار، بڑے تاجر، برآمدکنندگان، اعلیٰ سرکاری افسران، ذخیرہ اندوز، ناجائز منافع خور، مافیا گروپس اور جرائم پیشہ عناصر شامل ہیں، تنخواہ دار طبقہ، دیہاڑی دار اورمزدور غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذارنے والوں کی تعداد مجموعی آبادی کا 95فیصد ہے گویا بائیس کروڑ کی آبادی میں سے اکیس کروڑ اسی لاکھ افراد مہنگائی کی وجہ سے نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں۔ اور یہی وہ طبقہ ہے جو انتخابات میں کنگ میکر کا کردار ادا کرتا ہے۔ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک کمزور اور مقبول قیادت سے محروم اپوزیشن ملی ہے۔۔ تین سال تک موجودہ حکومت تمام خرابیوں کی ذمہ داری سابقہ حکمرانوں پر ڈالتی رہی اور عوام کو بھی حکمرانوں کی باتوں کا کسی حد تک یقین آتا رہا۔ مگر اب حکومت کو ٹھوس کارکردگی پرمبنی نیا چورن لانا ہوگا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار میں آنے والی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو جس قدر سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے مقابلے میں موجودہ حکومت کودرپیش مسائل برائے نام ہیں۔ پانچ سالوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک شکست خوردہ قوم سے ناقابل تسخیر جوہری قوت بنادیا۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی بھٹو کے نقش قدم پر چلنا ہوگا عوام کو ریلیف پہنچانے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔بجلی، گیس، تیل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانی ہوگی اور یہ کام نہ صرف ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لئے ناگزیر ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی بقاء کا انحصار بھی موجودہ حکومت کی اگلے ڈیڑھ سالوں کی کارکردگی پر ہوگا۔