اپوزیشن جماعتیں جو ایک عرصہ سے حکومت کے خلاف مؤثر انداز میں میدان گرم کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی تھیں جس کی بڑی وجہ ان کاباہمی نفاق ہی رہاہے اب ان کو موقع مل گیاہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے کیلئے میدان میں کود پڑیں۔پی ٹی آئی کے لئے سب سے بڑا ایشو اور سب سے بڑا خطر ہ کو ئی اپوزیشن جماعت یا کوئی اپوزیشن رہنما ہرگز نہیں پی ٹی آئی اور اس کی حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ یقینا مہنگائی سے ہے اور اس کااعتراف خود وزیر اعظم عمران خان باربار کرتے چلے آرہے ہیں مہنگائی نے یقینا لوگوں کو اب ادھ موا کرناشروع کیاہواہے اگردیکھاجائے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کیا جاچکاہے جس کے بعد بجلی کی قیمتیں بھی بڑھادی گئی ہیں ساتھ ہی ایل پی جی بھی مہنگی ہوچکی ہے ان خدشات کااظہار کیاجارہاتھاکہ پٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی مزید بڑھ جائے گی وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مہنگائی عارضی ہے۔سی پیک پرکام تیز ہونے سے قیمتوں میں کمی آئے گی۔وزراء کی طرف سے یہ بھی کہاجارہاہے کہ اگلے چندماہ میں حالات بدلناشروع ہوجائیں گے اور مہنگائی سے جان چھوٹ جائے گی مگر اس وقت تو لوگوں کا یہ حال ہے کہ انہیں دووقت کی روٹی کے لالے پڑگئے ہیں۔ اشیاء خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں پھلوں کی بات کی جائے پھلوں کو عوام دیکھ سکتے ہیں لیکن خرید نہیں سکتے۔ مالکان نے دکانوں اور گھروں کے کرائے بھی بڑھا دیئے ہیں۔ رکشوں اور ٹیکسیوں کے کرائے بھی حد سے بڑھا دیئے گئے ہیں۔پختہ چائے فروش والوں نے الگ سے قیمتیں مقرر کی ہیں جبکہ نانبائیوں نے بھی روٹی کی قیمتوں میں خودساختہ اضافہ کردیاہے ان حالات کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت نے عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ کی حالت تو سب سے زیادہ خراب ہے۔ یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کے بعد کسی کے پاس کھانے پینے کے لئے پیسے نہیں بچتے۔ کئی لوگوں نے بچوں کو سکولوں سے اٹھالیا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کرپشن کے خاتمے، تبدیلی اور مہنگائی اور ناقابل برداشت یوٹیلٹی بلز کے خلاف میدان میں اترے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے دھرنے کے دوران بجلی کے بلز جلا دیئے تھے کہ یہ ظلم ہے عوام اتنے بھاری بھر کم بجلی کے بل جمع نہیں کرسکتے۔ لیکن آج جب ان کی حکومت ہے مہنگائی نے لوگوں کاجینا دوبھر کرکے رکھ دیاہے اپوزیشن نے بھی مہنگائی کے ایشو کو خوب اٹھایا ہے پہلے اپوزیشن حکومت گرانے کی تگ ودو میں مصروف تھی۔ اب اس نے حکومت گرانے کی بجائے مہنگائی کیخلاف عوام کو ابھارنا شروع کردیا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو سب سے زیادہ توجہ مہنگائی کی روک تھام پر دینی چاہئے سابق صدر جنرل ایوب خان کے دو رمیں چینی4 آنے فی سیر مہنگی ہوگئی تھی تو پورے پاکستان میں اس کیخلاف جلسے وجلوس اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیا مگر گذشتہ دنوں آٹے کی بوری کی قیمت میں اچانک 600 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے غلہ مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران تیسری بار اضافہ ہوا، گزشتہ ہفتہ آٹے کی 85 کلو بوری کی قیمت 5200 روپے سے600 روپے کے اضافہ کے ساتھ5800 تک پہنچ گئی تھی آٹے کی قیمت میں اضافے کیساتھ ہی نانبائیوں نے بھی شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا ہے اور روٹی کا وزن کم کردیا ہے خودپشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہاہے کہ ملک کے حالات اتنے خراب ہیں کہ گندم اور چینی میں خود کفالت کے باوجود اب ہمیں یہ درآمد کرنا پڑ رہی ہے مہنگی گندم اور چینی درآمد کرنے سے بوجھ غریب عوام پر پڑے گا کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے قیمتیں مزید بڑھیں گی انکاکہناتھا کہ پتہ نہیں حکومت کس طرف جارہی ہے یہاں پر غریب کو ایک وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔ اب وہ مہنگے داموں گندم اور چینی خریدیں گے ان حالات کا ذمہ دار کون ہے۔فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس آٹے کی قیمتوں سے متعلق دائر رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران دیئے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کی ذمہ داری حکومت وقت کی ہوتی ہے حکومت کے پاس مہنگائی کی روک تھام کے لئے کئی ادارے اور محکمے موجود ہیں لیکن مہنگائی ہے کہ کم ہونے کی بجائے برابر بڑھ رہی ہے موجودہ حکومت کے اقتدار کا عرصہ بمشکل ڈیڑھ سال رہ گیا ہے اگر مہنگائی کی رفتار یوں ہی برقرار رہی تو پھر آنے والے بلدیاتی اور عام انتخابات میں حکمران جماعت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتاہے۔ہمارا یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے ہاں تو حکمرانوں کے پاس مہنگائی کاکوئی توڑ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کے پاس، بفرض محال اگر 2023ء میں اپوزیشن کو حکومت مل جاتی ہے تو وہ مہنگائی کم کرنے کی بجائے سابق حکمرانوں پر تنقید کرے گی کہ انہوں نے کرپشن کی ہے سرکاری خزانہ خالی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس عوام کو دینے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے یوں ہی چلا آرہا ہے اس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ خوار غریب عوام ہی ہوئے ہیں ہرجماعت مہنگائی کو سابق حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ ہر آنے والی حکومت میں مہنگائی میں پچھلے ادوار کی نسبت کئی گنا اضافہ ہوتاہے گویا ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس نے اپنے دور میں لوگوں کی جان مہنگائی سے چھڑائی تھی اگر چینی کی ہی بات کریں تو اس وقت شوگر ملوں کے مالکان میں حکمران جماعت سے کہیں زیادہ کاتعلق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے ہے مگر مجال ہے کہ کوئی بھی مالک اپنا منافع کم کر کے لوگوں کو ریلیف دینے کے لئے حکمت عملی طے کر کے عمل بھی کرے، اس وقت مہنگائی کو قابو کرناحکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن چکاہے۔اس سلسلہ میں حکومت کو انتظامیہ کی رٹ کو مؤثر انداز میں قائم کرکے دکھاناہوگا۔مہنگائی کے اس معاملہ میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کچھ عناصر مصنوعی مہنگائی کے ذریعہ ایک طرف حکومت کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ناجائز منافع خوری کے ذریعہ اپنی تجوریا ں بھی بھر نے میں لگے ہوئے ہیں۔مثال کے طورپراس وقت غیر اعلانیہ طورپر پنجاب کی مارکیٹ میں پچاسی کلو آٹے کی بوری ختم کرکے اب 80کلو کی بور ی متعارف کرائی گئی ہے یوں پانچ کلو آٹا کم ہونے سے قیمت پر فرق پڑاہے جس سے لوگوں کویہ دھوکا دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آٹا سستاہوچکاہے حکومت کو اس کافوری نوٹس لیناچاہئے اسی طرح مڈل مین کے کردار کو بھی محدود تر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اصل فائد ہ تو اسی مڈل مین کو ہورہاہے کسان اور عام خریدار دونوں لٹ رہے ہیں مصنوعی مہنگائی کے لئے ذخیر ہ اندوزی کاسہار ا لیا جاتاہے اس کے خلاف بھی کھل کر اقدامات کرنے ہونگے سب سے بڑھ کریہ کہ سستا آٹافراہم کر نے کیلئے رمضان سے قبل تک جو نظام چلایاجارہاتھا اسے فوری بحال کیاجائے اس نظام کے تحت یونین کونسل کی سطح پر سستا آٹا فراہم کرنے کیلئے کوٹے دیئے گئے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو گھروں کی دہلیز پرہی سستا اور معیاری آٹامل رہاتھا اس سلسلہ میں خیبرپختونخواحکومت اوراس وقت کے مشیر خوراک نے مؤثر کردار ادا کیاتھا چنانچہ کوٹہ سسٹم ہنگامی بنیادوں پر بحال ہوگیا تو کم ازکم آٹے اورروٹی کی مہنگائی پر قابو پایاجاسکے گا۔وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ محمودخان کو اس وقت اپنی اپنی حکومت کاایک نکاتی یعنی مہنگائی مکاؤ ایجنڈا بناکر انتظامی افسران کو دفاتر سے باہر نکالناہوگا بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے انکو خود بازاروں اور مارکیٹوں میں جاکر چھاپہ مار مہم شروع کرنی چاہئے جس کے بعدیقینا حالات میں بہتری کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔وزیر اعلیٰ محمود خان اس سے قبل کامیاب چھاپہ مار مہم چلا بھی چکے ہیں انہیں ایک بارپھر یہ مہم چلانی ہوگی۔