بات سن اے چشم ِتر کچھ ہوش کر

پاک افغان طورخم سرحد پیدل آمدورفت کے لئے ”پانچ ماہ‘‘بند رہنے کے بعد کھول دی گئی ہے اور اِس سلسلے میں اکیس اکتوبر کی شام جاری ہونے والے اعلامیے کے بعد طورخم کی رونقیں بحال ہو گئی ہیں جہاں پہلے روز 240 افغان جبکہ 108 پاکستانی شہریت رکھنے والوں نے طورخم گیٹ پر ”آن لائن ویزہ اجراء‘‘اور سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی سہولیات سے فائدہ اُٹھایا۔ ذہن نشین رہے کہ بنا سفری دستاویزات افغانستان سے پاکستان آنے پر پابندی برقرار رہے گی جبکہ پاکستان داخل ہونے والوں کے ہر ممکنہ مکمل کوائف اور بائیومیٹرک شناخت بھی کی جائے گی۔ پاک افغان طورخم سرحد کھولنے کی اجازت وفاقی کابینہ کی منظوری سے ہوئی ہے جس کے بعد وزارت داخلہ کی جانب سے تحریری احکامات جاری کئے گئے اور اِس سلسلے میں ”آن لائن پاکستانی ویزوں‘‘کا اجراء شروع کیا گیا ہے جو افغانوں کو سرحد پر جاری کئے جائیں گے۔ افغان باشندوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے مطلب ہے اُنہیں اگر ”آن لائن ویزے‘‘جاری کئے جاتے ہیں یا نہیں اِس کی وقعت نہیں کیونکہ بطور مہاجر خود کو رجسٹر کروانے کے لئے اُن کا پہلا پڑاؤ پشاور میں اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر برائے مہاجرین (UNHCR) ہوتا ہے جہاں سے اُنہیں بطور باقاعدہ (رجسٹرڈ) مہاجر ہونے کی حیثیت مل جاتی ہے۔ افغانوں کو پاکستان پہنچ کر آن لائن ویزہ جاری کرنا درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان آمدورفت کو پہلے سے زیادہ آسان بنا دیا ہے اور اب جبکہ طورخم پر داخلہ پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے اور پہنچنے پر آن لائن ویزا بھی جاری ہونے لگا ہے تو اِس سے پاکستان کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ یقینی ہے۔ ”بات سن‘ اے چشم تر کچھ ہوش کر …… ڈوب جائے گا یہ گھر کچھ ہوش کر (طاہر حنفی)۔“بنیادی سوال یہ ہے اور اِس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ افغانستان کی معاشی و انسانی بحرانی صورت حال کتنی خطرناک ہے اور اِس کا مستقبل کیا ہے؟ افغانستان کی معیشت پہلے ہی بہت سست رو ترقی کر رہی تھی اور اِس میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری‘ نصف سے زائد آبادی کی انتہائی غربت‘ ناقص حکمرانی‘ انتظامی و مالی بدعنوانی‘ طویل جنگ سے پیدا ہونے والی نفرت و تعصبات اور کورونا وبا ء و خشک سالی نے مزید اضافہ کیا۔ افغانستان کی مجموعی خام قومی پیداوار (GDP) میں سالانہ آٹھ ارب ڈالر یعنی جی ڈی پی کے چالیس فیصد کے مساوی خسارہ ہے اور جس رفتار سے وہاں معاشی زوال آ رہا ہے یہ سب کچھ ہفتوں اور مہینوں میں ہوا ہے اور اِس زوال کی تیزرفتاری حیران کن ہے۔ افغانستان کو لگنے والا معاشی جھٹکا کسی بھی صورت قابل برداشت نہیں اور نہ ہی اِس کا طول پکڑنا پاکستان کے لئے خوش آئند ہے کیونکہ ایسی صورت میں افغانوں کا بھوک و افلاس اور بیماریوں سے بچنے کے لئے پاکستان کا رخ کرنا منطقی امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے معاشی مسائل کے سبب ملک انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ پہلے ہی وسیع پیمانے پر جہاں غربت‘ بھوک اور غذائیت کی کمی جیسے عوامل موجود ہوں وہاں غیر متوقع طور پر طالبان برسراقتدار آ جائیں تو یہ بات غیرملکی امدادی اداروں سمیت خود افغانوں کی اکثریت کے لئے بھی ناقابل قبول تھی کیونکہ وہ افغانستان کی ترقی اور معاشرے میں پیدا ہونے والی برداشت کو ایک مرتبہ پھر کھونا نہیں چاہتے۔ یہی حال پاکستان کا ہے جو بمشکل داخلی سلامتی کو سنبھال پایا ہے۔ عالمی دباؤ یا کسی بھی دوسرے محرک کے پیش نظر پاک افغان سرحد پر آمدورفت کی اجازت دیدی گئی ہے لیکن اِس کے ساتھ جڑے خطرات کا خاطرخواہ احساس نہیں کیا گیا۔ اگر افغان سرحد سے متصل خیمہ بستی کے قیام جیسا اقدام بھی کیا جائے تو ایک مرتبہ پھر افغان پورے ملک میں پھیل کر سیکورٹی کے لئے خطرہ نہیں بنیں گے اور یوں افغانستان کے انسانی بحران سے پاکستان میں جڑواں بحران پیدا نہیں ہوگا۔ ”اِس طرح ہوش گنوانا بھی کوئی بات نہیں …… اور یوں ہوش سے رہنے میں بھی نادانی ہے! (مصطفی زیدی)۔“