بلدیاتی اداروں کی بحالی کی امید

دوسال کے طویل انتظار کے بعد بالاخر صوبے میں بلدیاتی اداروں کے قیام کی امید پیدا ہوگئی۔الیکشن کمیشن نے صوبے میں دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیاہے۔ پہلے مرحلے میں صوبے کے 17اضلاع میں 19دسمبر کو نیبرہڈ کونسل، ویلج کونسل اور تحصیل کونسل کے انتخابات ہوں گے دوسرے مرحلے میں صوبے کے باقی ماندہ 18اضلاع میں بلدیاتی انتخابات اور تحصیل کونسل کے چیئرمینوں کا چناؤ16جنوری کو ہوگا۔ خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں 15 دسمبراور25مارچ کو دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی الیکشن کمیشن کو تجویز دی تھی۔محکمہ بلدیات خیبرپختونخوا کی جانب سے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا گیاتھا کہ 15دسمبر کو نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے انتخابات کرائے جائیں گے جبکہ تحصیل کونسل کے چیئرمینوں کا انتخاب25مارچ کو کیاجائے گا۔ تاہم الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ سیکرٹری بلدیات نے اپنے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے پر انتخابات وقت پر کرانا چاہتی تھی تاہم کورونا وبا، فاٹا انضمام، حد بندی اور مغربی سرحدوں پر امن وامان کے مسائل کے باعث بلدیاتی انتخابات کرانے میں تاخیر ہوئی۔خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کی معیاد28اگست 2019کو ختم ہوگئی تھی۔ آبادی کے سرکاری اعداد وشمار کی اشاعت میں وقت لگنے، کورونا وبااور امن وامان کی صورت حال کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات مسلسل التواء کا شکار رہے۔الیکشن ایکٹ کی دفعہ (4) 219کے تحت بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہونے کے بعد 120دنوں کے اندرانتخابات کا انعقادآئینی تقاضا ہے۔ صوبے میں آبادی کے اعدادوشمار 6مئی 2021کو شائع ہو چکے ہیں۔اس لئے انتخابات میں مزید تاخیرکا کوئی جواز نہیں رہتا تھا۔صوبائی حکومت کے مراسلے اورالیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ بلدیاتی انتخابات دو درجاتی ہوں گے۔ شہری علاقوں میں نچلی سطح پر نیبر ہڈ کونسل اور بالائی سطح پر تحصیل اورٹاؤن کونسل ہوں گی۔جبکہ دیہی علاقوں کے بلدیاتی ادارے ویلج کونسل اور تحصیل کونسل پر مشتمل ہوں گے۔ ضلع کونسل کا تیسرا درجہ ختم کردیاگیا ہے۔ نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے چیئرمین بلحاظ عہدہ تحصیل کونسلوں کے ممبران ہوں گے جبکہ تحصیل اور ٹاؤن کونسل کے چیئرمین کا انتخاب براہ راست ہوگا۔ ضلع کونسل کے خاتمے سے دفاتر‘ اعزازیے‘ ٹرانسپورٹ‘بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور دیگر مدات میں بلدیاتی اداروں کے انتظامی اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوسکے گی۔بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کے باعث نچلی سطح پر عوامی فلاحی منصوبے ٹھپ ہوکر رہ گئے تھے۔ جن میں سڑکوں اور نالیوں کی صفائی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب، برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹس کا اجراء، ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی تصدیق، گلیوں اور نالیوں کی پختگی،بجلی و گیس کی فراہمی جیسے چھوٹے موٹے مسائل شامل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے عام لوگوں کی پہنچ میں ہوتے ہیں وہ عوام کے دکھ درد اور غمی خوشی میں شریک رہتے ہیں۔عام لوگوں کو ایم پی ایز اور ایم این ایز تک رسائی نہیں ہوتی اور نہ ہی صوبائی وقومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران عام لوگوں سے رابطے میں ہوتے ہیں۔اکثر ایم این ایز اور ایم پی ایز منتخب ہونے کے بعد پانچ سال تک اپنے حلقے کا دورہ بھی نہیں کرتے ایسی صورتحال میں بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی عوام شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ خیبر پختونخوا نے بلدیاتی انتخابات کروانے میں بھی دیگر صوبوں سے سبقت لے لی۔ حالانکہ صوبائی حکومت کے سامنے فاٹا انضمام کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرانے اور وسائل کی کمی سمیت بہت سی رکاوٹیں تھیں۔ توقع ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت صوبائی فنانس کمیشن کے تحت بلدیاتی اداروں کو عوامی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے خاطر خاطر وسائل بھی فراہم کرے گی تاکہ نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکے۔