خالصتان ریفرنڈم سے بھارت لرزہ براندام

بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے سکھوں کی تحریک زور پکڑنے لگی۔ سکھ برادری کی قیادت نے 31اکتوبر کو خالصتان ریفرنڈم کا اعلان کردیا ہے۔خالصتان ریفرنڈم کا افتتاح برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے کوئن ایلزبیتھ سینٹر میں ہوگا۔ سکھ رہنماوں نے علیحدہ وطن کا نقشہ بھی جاری کر دیا ہے۔جس کے تحت بھارتی ریاست ہریانہ، ہماچل پردیش، راجستھان اور اترپردیش کے سکھ اکثریتی علاقے بھی خالصتان کا حصہ ہوں گے صدر سکھ فار جسٹس موومنٹ سردار اوتار سنگھ کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کرانا سکھوں کاجمہوری حق ہے، سکھ قوم اپنی آزادی کا پہلا ووٹ لندن میں کاسٹ کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے مشرقی پنجاب پر قبضہ کر رکھا ہے، برطانیہ کے175 گردوارے ہمارے ساتھ ہیں۔ صدر کونسل آف خالصتان ڈاکٹر بخشی سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت میں آزادی کا حق مانگنے پر سکھوں پرگولیاں چلائی جاتی ہیں اب تک ہزاروں سکھ آزادی کی خاطر جانوں کانذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا کی نگاہیں سکھ قوم کے ریفرنڈم پر ہیں، پرامن جمہوری طریقے سے اپنا وطن آزاد کرائیں گے۔بھارت میں اس وقت کشمیر، خالصتان اور تامل ریاست سمیت علیحدگی کی سات تحریکیں چل رہی ہیں۔ اپنے اندرونی خلفشار سے دنیا کی نظریں ہٹانے کیلئے بھارتی حکومت پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کو ہوا دیتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھارت کے اندر انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے ایک عرصے سے احتجاج کر رہی ہیں مگر اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کیونکہ بھارت سوا ارب آبادی والی بڑی مارکیٹ ہے کشمیریوں، سکھوں، تاملوں، بنگالیوں اور دیگر مظلوم اقوام سے ہمدردی جتاکر وہ اپنی تجارتی مارکیٹ کو خراب نہیں کرنا چاہتیں۔دیکھنا یہ ہے کہ بھارت فوجی طاقت کے بل پر آزادی کی تحریکوں کو کب تک دباسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو بھارت پاکستان کی طرف سے سپانسرڈ قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ہے حالانکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے جابرانہ بھارتی تسلط کے خلاف آزادی کی تحریک خود شروع کررکھی ہے اور اب تک وہ اسی ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ہزاروں بچے یتیم اور ہزاروں خواتین کے سہاگ اجڑ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرلیا ہے۔ اب خالصتان تحریک اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ خالصتان ریفرنڈم سکھوں کی آزادی کی تحریک کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتا ہے۔ بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے راجیو گاندھی کا قتل بھی سکھوں کی تحریک حریت کا حصہ ہے۔ گولڈن ٹیمپل پر فوج کے ذریعے قبضے کو سکھ قوم کبھی نہیں بھولے گی۔ کسی خاندان کے افراد کے ساتھ بھی منصفانہ سلوک نہیں ہوگا تو اس خاندان کو یکجا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بھارت میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہندوستان کی سرزمین پر ہندؤوں کے سوا کسی کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ مذہبی اقلیتوں پر اکثریتی طبقے نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ مسلمانوں اورسکھوں کے مقدس مقامات کی حرمت کو پامال کیاجاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لندن سے شروع ہونے والا خالصتان ریفرنڈم کینیڈا، امریکہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، ناروے اور دیگر ملکوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ جب یہ عالمی تحریک کی صورت اختیار کرگئی تو بھارت کے پاس خالصتان کی آزادی کے اعلان کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔