کورونا وبا کے بعد پشاور ’ڈینگی‘ کی زد میں ہے۔ صوبائی محکمہئ صحت نے خبردار کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کے مقابلے پشاور میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہے جبکہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف کورونا وبا کے باعث اموات ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ڈینگی کے باعث بھی اہل پشاور لقمہئ اجل بن رہے ہیں۔ اختتام پذیر ہوئے ہفتے کے آخری دن خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں 156 افراد ڈینگی سے متاثر ثابت ہوئے جن میں سے 33 کا تعلق پشاور سے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ڈینگی (Dengue) مچھر سے انسانوں میں منتقل ہونے والا جرثومہ (Virus) ہے جس کی 4 اقسام ہیں اور اِن چاروں اقسام کی وجہ سے جان لیوا بخار ہوتا ہے جسے ’زرد بخار (yellow fever)‘ بھی کہا جاتا ہے۔ متاثر ہونے والے شخص (مرد یا عورت) میں ڈینگی کی علامات تین سے چودہ ایام میں ظاہر ہوتی ہیں اور اِن علامات میں تیز بخار‘ سر میں درد‘ متلی‘ قہ‘ بدن اور بالخصوص ہڈیوں یا اِن کے جوڑوں میں درد ہونا ہے جبکہ اِس مرض سے متاثرہ شخص کی جلد پر سوزش (rash) بھی پیدا ہوتی ہے۔ ڈینگی قابل علاج مرض ہے اور اگر اِس کا فوری علاج شروع کیا جائے تو 2 سے 7 روز میں مریض صحت یاب ہو سکتا ہے لیکن اگر مرض بگڑ جائے تو اِس سے خون کی قہ یا ناک سے خون آنا اور خون کے ذرات (platelets) میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے جس سے فشار خون کم ہو جاتا ہے اور اِسی وجہ سے زیادہ تر اموات ہوتی ہیں۔اہل پشاور کا سامنا وباؤں سے ہے۔ گزشتہ برس کے آغاز میں کورونا وبا نے اہل پشاور کو گرفت میں لیا تھا تب خیبرپختونخوا میں کورونا سے مجموعی متاثرین 1 لاکھ 77 ہزار 440 میں سے 64 ہزار 384 مریضوں کا تعلق پشاور سے تھا اُور صرف متاثرہ مریض ہی نہیں بلکہ کورونا کے باعث سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی پشاور ہی میں ہوئی تھیں۔ اب تک کورونا سے 5ہزار 713 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں سے 2 ہزار 734 کا تعلق پشاور سے ہے۔ فی الوقت خیبرپختونخوا میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی کل تعداد 2 ہزار 676 ہے جن میں سے 627 پشاوری ہیں۔ صوبائی محکمہئ صحت کے اِن اعدادوشمار کا اُمید افزأ پہلو یہ ہے کہ کورونا وبا سے متاثرہ سب سے زیادہ افراد کی صحت یابی بھی پشاور ہی میں ہوئی لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ کورونا ہو یا ڈینگی‘ دونوں وبائیں تیزی سے پھیلی ہیں اور اِن کے پھیلنے کی رفتار اِس بات کا ثبوت ہے کہ اہل پشاور توجہ دلانے کے باوجود احتیاط نہیں کر رہے اور مذکورہ و دیگر بیماریوں کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتے۔ توجہ طلب ہے کہ صوبائی محکمہئ صحت کی جانب سے اعدادوشمار جاری کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگ عبرت حاصل کریں اور اپنے آس پاس‘ گردوپیش میں موجود وبائی خطرے کی موجودگی کا احساس کریں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ غیرضروری مہم جوئی اور افواہوں پر کان دھرنے کی بجائے سادہ‘ صحت مند اور محتاط طرز زندگی اختیار کیا جائے؟ وبا سے متعلق جو حقائق چیخ چیخ کر اپنی جانب متوجہ کر رہے ہیں اگر اُن کی سنجیدگی اور تاثیر پر غور کرتے ہوئے طرز زندگی یا معمولات زندگی تبدیل نہ کئے گئے تو ہر شخص اپنی بیماری اور اِس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کیلئے خود ذمہ دار ہوگا۔ عقلمندی اِسی میں ہے کہ اُس راستے کو بدل دیا جائے جو ہمیں وباؤں کے قریب اور زندگی سے دور کرنے کا مؤجب ہے۔’وبا کے موسم‘ میں پشاور میں دستیاب علاج معالجے کے وسائل پر بوجھ بڑھ گیا ہے اور اگرچہ دیگر اضلاع میں علاج گاہیں موجود ہیں لیکن کورونا اور ڈینگی کا نفسیاتی دباؤ اِس قدر ہوتا ہے کہ دیگر اضلاع سے بھی مریضوں پشاور لایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہونے والے کورونا اور ڈینگی کے 70 فیصد تجزئیات پشاور میں ہو رہے ہیں اور یہی تناسب زیرعلاج مریضوں کا بھی ہے جن کی تسلی و تشفی اُس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ پشاور کے تین مرکزی (بڑے) ہسپتالوں سے رجوع نہ کریں۔ پشاور سے متعلق یہ تاثر بھی وقت کے ساتھ غلط ثابت ہوا ہے کہ یہ شہر کورونا وبا کا مرکز ہے اور یہاں کا ہر شخص یا ہر دوسرا شخص کورونا سے متاثر ہے جبکہ صورتحال قطعی برعکس ہے ۔اس وقت ڈینگی کا مسئلہ درپیش ہے جس کی شدت اس وت زیادہ ہے اورموجودہ ڈینگی بخار کی لہر ماضی سے زیادہ مختلف نہیں اور نہ ہی اِس کی شدت کم ہے جبکہ ماضی کے برعکس اِس مرتبہ خاطرخواہ احتیاط بھی نہیں کی جا رہی۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ موسم تیزی سے بدل رہا ہے اور سردی دستک دے رہی ہے جس کی وجہ سے ڈینگی بخار کا باعث بننے والے مچھر کی نقل و حرکت محدود ہو جاتی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ ڈینگی کا مچھر پندرہ سے پینتیس ڈگری سنٹی گریڈ کے درمیان فعال رہتا ہے اور جیسے ہی درجہئ حرارت پندرہ ڈگری سے کم ہو‘ اِس مچھر کے وار رک جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے بالائی علاقے ڈینگی وبا سے محفوظ رہے یا وہاں اِس کا پھیلاؤ چند ہفتے رہنے کے بعد ازخود ختم ہو چکا ہے۔