پاکستان کیلئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021ء تک پہنچنے کا سفر ہرگز آسان نہیں تھا۔ ورلڈ کپ کیلئے اس کی تیاریوں کو یکے بعد دیگرے بڑے دھچکے پہنچے۔ نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے خلاف ہوم سیریز سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کی تیاریوں کیلئے بہت ضروری اور اہم تھیں لیکن نیوزی لینڈ پاکستان پہنچ کر سیریز کھیلے بغیر واپس چلا گیا جبکہ برطانیہ نے پاکستان آنے سے معذرت کرلی۔ یہی نہیں گزشتہ چند ماہ میں پاکستان کرکٹ کے منتظم ادارے میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ سے لے کر ٹیم کے کوچز تک‘ سب کو بدلا گیا اور ’سونے پہ سہاگہ‘ یہ کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کا بھارت کے خلاف ریکارڈ ہے۔ 1992ء میں پہلی بار کسی ورلڈ کپ میں پاک بھارت ٹاکرا ہوا تھا۔ گوکہ پاکستان بعد میں ورلڈ چیمپیئن بنا تھا لیکن یاد رہے کہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن‘ ورلڈ کپ چاہے ون ڈے کا ہو یا ٹی ٹوئنٹی کا‘ روایتی حریف کے خلاف پاکستان کے نصیب میں ہار ہی رہی۔ یہ وہ ’ریکارڈ‘ ہے جو بھارت کے شائقین بڑے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں باوجود اس کے کہ بین الاقوامی کرکٹ میں بھارت کے خلاف مجموعی فتوحات میں پاکستان آج بھی کہیں آگے ہے۔چوبیس اکتوبر‘ ناممکن کے ممکن ہوجانے کا دن ہوا۔ گویا پاکستان نے جس چیز کو ہاتھ لگایا سونا بن گئی۔ ٹاس جیتا‘ بھارت کو ابتدا ہی میں پچھلے قدموں پر دھکیلا‘ حریف کی بلے بازی کی کمر توڑ دی‘ باؤلنگ کے بخیے بھی ادھیڑ دیئے اور بغیر کسی نقصان کے ’ٹیم انڈیا‘ کا دیا گیا ہدف مقررہ اوورز کے ختم ہونے سے قبل حاصل کرلیا۔ جی ہاں! پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021ء کے میزبان ملک بھارت کے خلاف اپنا پہلا مقابلہ دس وکٹوں سے جیت کر تاریخ رقم کر چکا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے خلاف تو درکنار کبھی کسی ٹیم کے خلاف دس وکٹوں سے کوئی بھی ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں جیتا تھا بلکہ بھارت بھی خود دس وکٹوں سے کبھی نہیں ہارا تھا۔ یہ حیران کن ریکارڈ بھی اسی دن کیلئے لکھا تھا۔ ویسے بھارت نے اس مرتبہ بھی ایک اشتہار بنایا تھا اور یقین جانیں وہ بھی حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔ یہ بدنامِ زمانہ ’موقع موقع‘ والے اشتہار کا ہی تسلسل تھا جس میں پاکستانی شائق کا کردار ادا کرنے والا اداکار کہتا ہے ”اس بار بابر رضوان دبئی میں ایسے چھکے ماریں گے کہ دہلی میں شیشے ٹوٹیں گے“ اور یہ بھی کہ ”اس مرتبہ بابر اور شاہین کو مت بھول جانا۔“ اس اشتہار کے عین مطابق پاکستان کے یہی کھلاڑی ”آ گئے اور چھا گئے۔“ شاہین آفریدی نے ابتدائی اوورز میں ہی بھارتی اوپنرز کو ٹھکانے لگا دیا۔ ان کی روہت شرما اور کے ایل راہول کو پھینکی گئی گیندیں ایک عرصے تک ویسے ہی ذہنوں میں تازہ رہیں گی‘ جیسے عامر کا چیمپیئنز ٹرافی 2017ء کے فائنل میں بھارت کے خلاف باؤلنگ سپیل تھا۔ شاہین آفریدی نے پاکستان کو امید دی‘ حوصلہ دیا اور ٹیم کی باڈی لینگویج ہی بدل دی۔ ویسے دبئی کا خوبصورت میدان بھی پاکستان کیلئے خوش نصیب ہے۔ پاکستان اس میدان پر مسلسل سات فتوحات حاصل کرچکا ہے۔ بھارت سے قبل یہاں ہونے والے اپنے آخری تمام چھ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں سے 2 ویسٹ انڈیز‘ 2 آسٹریلیا اور 2 نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان نے جیتے اور یہی تسلسل ہمیں بھارت کے مقابلے میں بھی نظر آیا۔ پاکستان کی فتح کی بنیاد شاہین آفریدی کے ابتدائی باؤلنگ سپیل نے رکھی تھی۔ پاکستان نے پاور پلے میں ہی بھارت کی تین وکٹیں لے کر مقابلے کا رخ طے کردیا تھا۔ البتہ کوہلی کے ستاون رنز کی بدولت بھارت نے کسی حد تک اپنی اننگ بحال کرلی تھی۔ بھارت نے آخری پانچ اوورز میں اکیاون رنز بلکہ آخری دس اوورز کو دیکھا جائے تو اس میں اکانوے رنز کا اضافہ کیا یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابتدائی نقصان کے بعد کسی حد تک تلافی ہوگئی تھی لیکن یاد رہے کہ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ اس لئے کیا تھا تاکہ اسے اوس پڑنے کی وجہ سے باؤلنگ میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بھارت کے پاس بہت کم وقت تھا‘ اسے ابتدا ہی میں پاکستان پر بھرپور وار کرنا تھے تاکہ جلد از جلد اسے دباؤ میں لائے اور اوس پڑنے سے پہلے پہلے مقابلے کو اپنے حق میں جھکا لے لیکن یہاں پر پھر انہونی ہوگئی۔ بابر اعظم اور رضوان نے ایک لمحے کے لئے بھی مقابلے پر گرفت کمزور نہ پڑنے دی۔ پاکستان کی کامیابی کے بعد ایسے مناظر دکھائی دیئے‘ جن کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔ کوہلی کا سب سے پہلے مبارک باد کیلئے بابر اور رضوان کے پاس آنا‘ گلے لگنا‘ مسکراہٹوں کے تبادلے‘ پھر مہندر سنگھ دھونی کی بابر اعظم اور دیگر پاکستانی کھلاڑیوں سے ملاقات‘ ٹیموں کے ایک دوسرے سے مصافحے کے دوران دوستانہ رویئے کا اظہار اور شاہنواز دھانی کا دھونی کے ساتھ ’فین مومنٹ‘ یہ سب اس مقابلے کو یادگار بنا گئے ہیں۔