خیبرپختونخوا کی بات کریں تو یہاں عالمی شہرت کے سیاسی رہنما ؤں نے جنم لیا اور پھر بھرپور انداز میں سیاسی میدان میں سرگرم رہے اس خطے نے ذہین ترین بیوروکریٹس کو بھی جنم دیا جنہوں نے نظام مملکت چلانے میں اہم کردار ادا کیے رکھا یہاں کے شعرا ء نے بھی اپنا مقام بنایا ادیبوں اورصحافیوں نے بھی نام کمایا یہ خطہ کبھی بھی بانجھ نہیں رہا تاہم ایک حوالہ سے تشنگی ہمیشہ سے رہی ہے خاص طورپریہاں کے سیاسی رہنماؤں اورریٹائرڈ افسران کے حوالہ سے کہ ان میں سے کسی نے بھی اپنی زندگی کے تجربات سامنے لانے اور قوم کے سامنے رکھنے کی کوشش نہیں کی اس حوالہ سے صرف باچاخان،ولی خان ہی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنے تجربات تحریری صورت میں سامنے لاتے ہوئے بلاشبہ اگلی نسلوں کو تاریخی ریکارڈ حوالہ کیاہواہے جبکہ اسی فہرست میں بیگم کلثوم سیف اللہ خان کانام بھی شامل ہے ان سب کے علاوہ اب تک صوبہ کے کسی اور نامور سیاسی رہنما یا پھر ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی اپنی یادداشتوں پر مشتمل سوانح عمری یاآب بیتی سامنے نہیں آسکی ہے یا پھر کم از کم ہماری نظرسے نہیں گذری اس سلسلہ میں راقم نے خودبعض شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں میں ان سے درخواست کی کہ وہ تاریخ کاریکارڈدرست رکھنے کیلئے اپنی یادداشتوں کو تحریری صور ت میں محفوظ کرلیں ان میں افضل خان لالا،حاجی محمدعدیل،ڈاکٹر عبدالمتین خان،بیگم نسیم ولی خان بھی شامل تھیں تاہم ان میں سے کسی بھی رہنما نے اس طرف توجہ مبذول نہ کی غالبا اس وقت ان کی یادداشت اور طاقت دونوں خاصی متاثر ہوچکی تھیں اوریوں یہ لوگ پورے کاپورا ذخیرہ ہی اپنے ساتھ لیے رخصت ہوگئے اس وقت بھی بہت سے ایسے سیاسی رہنما،وکلا،ریٹائرڈ بیوروکریٹ،سینئر صحافی موجودہیں جن کے دماغ میں اپنے اپنے ادوار کے ریکارڈ محفوظ ہیں مگر کو ئی بھی وقت نکال کر یہ امانت اگلی نسلوں کے لیے تحریری شکل میں محفوظ کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتا اس کے برعکس اٹک پار اس حوالہ سے شاندارکتابیں شائع ہوتی رہی ہیں شہاب نامہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے وہاں کی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ بیوروکریٹس حتیٰ کہ ریٹائرڈ جرنیلوں کی طرف سے اس حوالہ سے بہترین کتابیں ماضی میں بھی آچکی ہیں اور اب بھی شائع ہورہی ہیں یوں وہاں کے زعماء ایک طرح سے تاریخ کو محفوظ بنانے میں پوری طرح سے سرگرم ہیں مگر ہم اس معاملہ میں بدقسمتی سے بانجھ ہی ہیں آج بھی کئی شخصیا ت ہم میں ایسی موجودہیں جن کے پاس یاددادشتوں کے ایسے ایسے ذخیرے موجودہیں جو مستقبل میں تاریخ کو محفو ظ رکھنے کے کام آسکتے ہیں انہی میں سے ایک شخصیت ایسی ہے جو ایک دینی گھرانے،عسکری و اینٹلی جنس پس منظر اور سیاسی نشیب وفراز سے و ابستہ چلے آرہی ہے بالخصوص ان کے پاس افغان جہاد اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حوالہ سے یادداشتوں کا ایک نایاب ذخیر ہ موجود ہے ایسی ایسی داستانیں اس سینے میں محفوظ ہیں جن کانئی نسل کے سامنے آنا ضروری ہوچکا پتہ تو چلے کہ کیا ہوتارہا ہے کس طرح پاکستان کے خلاف عالمی سطح پرسازشوں کے جال بنے گئے،کس طرح شمالی علاقہ جات کو پاکستان سے الگ کرکے خود مختارریاست بنانے کی کوشش کی گئی،جنرل ضیاء الحق کے قتل کی سازش کے تانے بانے کہاں جاکر ملتے ہیں کس طرح ملک کی سلامتی کے راز افشاء کرنے والوں کو اعلیٰ مناصب پرسرفراز کیاگیا یہ اور سربستہ رازوں پر مشتمل اس طرح کی کئی داستانیں جب رقم ہونگی تو بڑی حد تک پاکستان کو اس کٹہرے سے نکالا جاسکے گا جس میں اس کو اپنے ہی مرعوب فکر بھکاریوں اور دانش فروشوں نے لاکھڑا کیاہواہے یہ شخصیت آئی ایس آئی کے ساتھ طویل عرصہ تک وابستہ رہنے والے میجر عامر ہیں جنہوں نے پہلی بار یہ نکتہ سمجھایاکہ پاک افغان تعلقات کے معاملہ پر بات کرنے اور پاکستان کو مطعون کرنے سے قبل تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھناچاہیے انہوں نے ہی بتایاکہ افغان مسلہ پر بات روسی حملہ سے نہیں بلکہ قیام پاکستان سے شروع کرنی چاہئے کس طرح افغان سرزمین 1947ء سے 1979تک پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی کس طرح وہاں پاکستان کے باغیوں کے کیمپ ہر دو ر میں قائم کے گئے کس طرح وہاں الذوالفقار کو کام کرنے دیا گیا کس طرح افغان حکومت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی کھل کر مخالفت کی کس طرح پختو نستان کے ایشو کو مصنوعی طریقے سے زندہ رکھاگیا کس کس طرح بلوچ اور پختون انتہاپسندعناصر کو پاکستان کے خلاف کام کر نے کی مکمل آزاد ی دی گئی ہمارے ہاں کبھی بھی اس حوالہ سے لب کشائی نہیں کی جاتی سارا ملبہ ہمیشہ پاکستان پرڈالا جاتاہے اس لیے اب افغان مسئلہ پر بات کرنے سے قبل پہلے دور کو بھی سامنا لانا ضروری ہے میجر عامر ا س سلسلہ میں اس قوم کے مقروض ہیں انہیں یہ قرض اب تحریری صورت میں جلد سے جلد ادا کرنے کے لیے آگے آناہوگا اگرچہ وہ گاہے بگاہے اس حوالہ سے اپنی تقاریر‘ اپنے انٹرویوز اور تجزیوں میں بہت سے امور کا ذکر کرچکے ہیں اوروقتا فوقتا ذکر کرتے بھی رہتے ہیں تاہم اب اس مرحلہ پر یہ ضروری ہوچکاکہ وہ خیبرپختونخوا کے اس بانجھ پن کو دور کرتے ہوئے بارش کاپہلا قطرہ بن کرسامنے آئیں ان کو اپنی مصروفیات میں سے اب وقت نکال کر نوجوان نسل کے اس قرض کی ادئیگی یقینی بناناہوگی میجرعامر کی خوبی یہ ہے کہ نہ صرف خود بہت اچھے دوست ہیں بلکہ لوگوں کو بھی ایک دوسرے کادوست بنانے میں مگن رہتے ہیں صوابی میں ان کافارم ہاؤس اور اسلام آباد میں واقع انکی رہائشگاہ ہمیشہ مہمانوں سے بھری رہتی ہے جہاں ہر نظریہ،ہرزبان،ہر علاقہ،ہر پیشے کے لوگ جمع ہوکر ان کی شاندار مہمان نوازی اور خلوص ومحبت سے تو فیض یاب ہوتے ہی ہیں ایک دوسرے کے قریب بھی آتے ہیں اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں تویہاں تک کہاجاتاہے کہ اگر آپ نے کامیاب رپورٹر بنناہے یا پھر خبر ڈھونڈنی ہے تو میجر عامر کے مہمان خانے کاچکر ضرورلگاناچاہئے یہاں سجنے والی نشستیں ہم جیسے لوگوں کیلئے معلومات کاخزانہ ثابت ہواکرتی ہیں بلکہ ہم نے تو یہاں بڑے بڑے اینکرز اور تجزیہ کاروں کو بھی حیرت کاشکارہوتے دیکھاہے میجر عامر جس طرح اپنے دوستوں اورمہمانوں کیلئے وقت نکالنے کاہنر جانتے ہیں اب ان کو یہی ہنر یادداشتیں مرتب کرنے کیلئے بھی استعمال میں لاناہوگا۔