پشاور کہانی: پیشہ ورانہ گداگری

صوبائی حکومت نے انسداد ِگداگری مہم کا آغاز (چھبیس اکتوبر سے) کیا ہے جس کی نگرانی  کمشنر (ریاض خان محسود) کریں گے۔ پیشہ ور (منظم) گداگری کے خلاف مہم ایک حکومتی تحقیق اور اِس بارے میں مرتب کردہ رپورٹ کے بعد شروع کی گئی ہے جس کے مطابق ضلع پشاور میں 1463 پیشہ ور بھکاریوں کے گروہ ہیں جنہوں نے ضلع پشاور کو تقسیم کر رکھا ہے اُور یوں مل بانٹ کر گداگری کا دھندا چلایا جا رہا ہے۔ اگر تحقیق کے دائرہ کار کو وسیع کیا جاتا تو یہ انکشاف بھی سامنے آتا کہ گداگری کے منظم دھندے کے تانے بانے چھوٹی موٹی وارداتوں سے لیکر منظم جرائم تک پھیلے ہوئے ہیں اور اِسی کی وجہ سے منشیات فروشی کا نیٹ ورک بھی فعال ہے۔ گداگری کے خلاف حکومتی کاروائی کا فیصلہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور کمشنر ریاض خان محسود کے درمیان اتفاق رائے کے بعد ہوا‘ جس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر پشاور ڈاکٹر احتشام الحق کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ گداگروں کے خلاف کوائف (ڈیٹا) جمع کریں اور اِس امکان کو بھی دیکھیں کہ گداگری کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کون ہیں۔ جس کے بعد مرتب کردہ رپورٹ میں 1463 گداگر گروہوں کے ناموں پر مبنی فہرست مرتب ہوئی جن میں اُن کے سرپرست اور ٹھکانوں کے بارے بھی معلومات درج ہیں اور اِسی فہرست و معلومات کی بنیاد پر پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے انسداد ِگداگری کی مہم شروع کی ہے۔ ماضی میں بھی اِس قسم کی کوششیں دیکھنے میں آتی رہیں ہیں اور ایک موقع پر تو سماجی بہبود کے حکومتی محکمے (سوشل ویلفیئر) کو بھی گداگری اور بچوں سے مشقت کے سدباب کیلئے کوششوں میں شریک کیا گیا لیکن خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا کیونکہ اکثر حکومتی اداروں کی کاروائیاں ’وقتی اہداف‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کی جاتی ہیں اور طویل المعیادی حکمت عملیاں نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو گداگری کی روک تھام ہوتی ہے اور نہ ہی عمومی جرائم (سٹریٹ کرائمز) اور منشیات فروشی پر قابو پایا جا سکا ہے۔پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے گداگری سے متعلق بعداز تحقیق جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں اُن کے مطابق ضلع پشاور میں منظم گداگری کا دھندا سولہ سو سے سترہ سو سرغنہ کر رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں سال 2001ء میں کئی گئی ایک تحقیق موجود ہے جس کے مطابق پشاور اور اِس کے قرب و جوار میں قریب 5ہزار ایسے بچے ہیں‘ جن کے گھر بار نہیں اور وہ سڑکوں پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اِن لاوارث بچوں (street children) کی اکثریت بھیک مانگتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ جس کا عنوان Baseline Survey for Prevalence Rate and Cause of Child Begging in Peshawar City تھا سیو دی چلڈرن (Save the Children) نامی تنظیم کی جانب سے اُن کے اہلکار عبداللہ کھوسو نے مکمل کی تھی اور اِس کے نتائج دسمبر 2012ء میں جاری کئے گئے تھے۔ اِسی سے ملتی جلتی ایک اور تحقیق سٹریٹ چلڈرن میں مختلف بیماریوں بالخصوص ’ایچ آئی وی /  ایڈز‘ کے حوالے سے بھی کی گئی تھی جو ’سیو دی چلڈرن‘ ہی کا منصوبہ تھا۔ اِن کے علاوہ چائلڈ رائٹس ٹیلی ویژن نے پشاور کے بے آسرا اور بھکاری بچوں کے حوالے سے ایک دستاویزی پروگرام بنایا تھا جو دسمبر 2012ء میں نشر ہوا اور یہ بھی انٹرنیٹ (گوگل) کے ذریعے تلاش سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ تینوں مطالعات اِس حقیقت کا بیان ہیں کہ قانون کا خاطرخواہ سختی سے اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے گداگری منظم دھندا بن چکی ہے جسے جاری رکھنے کے بچوں کو اغوا کرنے اور جرائم و منشیات فروشی جیسے گھناؤنے کام بھی ہو رہے ہیں۔ یادش بخیر 2005ء میں خیبرپختونخوا (صوبائی) حکومت نے ’گداگر بچوں کیلئے ویلفیئر ہوم‘ کے نام سے امدادی‘ بحالی اور سرپرستی کے مراکز قائم کئے تھے۔ اِسی طرح سال دوہزاردس میں ”خیبرپختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ (KP CPWA) 2010ء“ کے نام سے خصوصی قانون متعارف کرایا گیا تاکہ بے آسرا بچوں کے حال و مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔
ریاست کا ایک کام ’سرپرستی‘ بھی ہوتا ہے اور قوانین کے بنا مصلحت و بلا امتیاز اطلاق کے ساتھ اِس بات  پر بھی زور دینا چاہئیکہ معاشرے کا کوئی ایک بھی طبقہ بالخصوص بچے خود کو بے آسرا تصور نہ کریں اور اُنہیں مجبوراً بھیک مانگنے کیلئے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ نفسیاتی نکتہئ نظر سے گداگری کو شروع کرنا مشکل لیکن اِسے ترک کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ محنت مزدوری کے مقابلے یہ کم مشقت طلب ہوتا ہے۔ پشاور شہر کے تجارتی مراکز میں لب سڑک اور جا بجا ایسی خواتین بھیک مانگتی مل جاتی ہیں جن کی گود میں زخمی بچے بیہوشی کی حالت میں پڑے ہوتے ہیں اور وہ اُن کے زخم اور جس کے ٹیڑھے اعضا کی نمائش کر کے بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں۔ بچوں کو اغوا کرنے کے بعد اُن کے جسمانی اعضا کاٹنے یا جسمانی اعضا کو کچھ عرصہ مضبوطی سے باندھے رکھنے سے معذوری کی حالت پیدا ہوتی ہے چونکہ خون کی گردش رک جاتی ہے اِس لئے انسانی جسم کا کوئی بھی عضو (ہاتھ پاؤں ٹانگ پنڈلیاں وغیرہ) جسم کے ساتھ نشوونما نہیں پاتے اور وہ نسبتاً چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ ایسے معذور بچوں کو گداگری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومتی دستاویزات اور اعدادوشمار کے مطابق اگر گداگری منظم روپ اختیار کر چکی ہے تو اِس کے سدباب و انسداد کیلئے منظم حکمت عملی مرتب کرنا پڑے گی جس کیلئے لمبی چوڑی تمہید اور تیاریوں کی ضرورت نہیں بلکہ جمعۃ المبارک کے روز ہر جامع مسجد کے باہر قطاروں میں بیٹھے بھکاریوں کو ’دارالآمان‘ منتقل کر کے اِن کے کوائف مرتب کئے جا سکتے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ اکثریت نے یہ دھندا بطور ’پیشہ‘ اختیار کر رکھا ہے۔ انسداد ِگداگری کی مہم کامیاب ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حکومتی فیصلہ سازی کو صیغہئ راز میں رکھا جائے اور گداگروں کے خلاف کاروائیوں کا جو فیصلہ وزیراعلیٰ اور کمشنر پشاور کے درمیان اتفاق رائے کا نتیجہ ہے‘ اُس کی تشہیر اُس وقت تک نہ کی جائے جب تک پشاور سے منظم گداگری یعنی پیشہ ورانہ گداگروں کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا۔