پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان چھ ارب ڈالر کے قرض پروگرام کو بحال کرنے کیلئے مذاکرات حتمی مرحلے میں ہیں بیل آؤٹ پیکیج کیلئے پاکستان کی اقتصادی ٹیم اس ماہ کے آغاز سے آئی ایم ایف سے بات چیت کر رہی ہے۔جائزہ مذاکرات کی کامیابی سے پاکستان کو بیل آؤٹ فنڈ سے ایک ارب ڈالر مزید مل سکتے ہیں۔ فریقین نے فی الحال ان مذاکرات کے نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کو قبل ازوقت اوربے بنیاد قرار دیا ہے۔آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان اندرونی آمدنی کو متحرک کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے جن میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری، لائن لاسز میں کمی، سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکس اہداف میں اضافہ اور مرکزی بینک کو زیادہ آپریشنل خودمختاری فراہم کرناشامل ہے۔ حکومت پہلے ہی بجلی کی قیمتوں میں پانچ مرتبہ اضافہ کر چکی ہے، جبکہ آٹے، چینی، گھی، کوکنگ آئل اور دیگر اشیائے ضروریہ پر سبسڈی ختم اور ٹیکسوں میں اضافہ کرچکی ہے۔گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ہر مہینے دو مرتبہ اضافہ کیاجاتا ہے۔ پٹرول 85روپے لیٹر سے اب 137روپے لیٹر تک پہنچ گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرضہ دینے والے اس کی واپسی کی ضمانت بھی طلب کرتے ہیں۔قرضہ لینے والے کی شرائط کوئی معنی نہیں رکھتیں قرضہ دینے والا اپنی شرائط منواتا ہے۔ امریکہ، جرمنی، برطانیہ سمیت دنیا کے متمول اور صنعتی طور پر ترقیافتہ ممالک بھی عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتے ہیں۔انہیں بھی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، پیرس کلب اور دیگر مالیاتی اداروں کی شرائط ماننی پڑتی ہیں۔ ہمارے ہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ سخت اور ناگوار شرائط پر لئے گئے قرضے قومی تعمیر و ترقی کے کسی اہم منصوبے پر خرچ نہیں ہوتے بلکہ پرانے قرضوں پر سود اور قسطیں ادا کرنے پر خرچ ہو جاتے ہیں اور اس قرض کو بھاری سود سمیت غریب عوام کو ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کی وجہ سے آج پاکستان کا ہر شہری تقریباً دو لاکھ کا قرض دار ہے۔ کسی نے بڑی اچھی تجویز دی ہے کہ ماضی میں جس حکومت نے جتنے قرضے لئے ہیں سود سمیت وہ قرضہ اس جماعت اور اس کے اتحادیوں سے وصول کیاجائے۔پیپلز پارٹی اپنے دور کے قرضے اپنے پلے سے ادا کرے، مسلم لیگ والے اپنے قرضے خود چکادیں اور تحریک انصاف اپنے دور میں لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرے تو عوام پر ٹیکسوں کو بوجھ ڈالنے اور مالیاتی اداروں کی ناگوار شرائط قبول کرکے اپنی انا کو ٹھیس پہنچانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ تجویز تو بہت ہی معقول ہے مگرسیاست دانوں کو کون قائل کرے۔ گذشتہ چالیس سالوں کے سیاسی ریکارڈ کی پڑتال کریں تو سارے سیاست دان ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پر چھ ارب ڈالر کا جو قرضہ لیاجارہا ہے وہ رقم قومی ترقی اور عوامی بہبود کے کن کن منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔قوم کو اگر یہ حقائق معلوم ہوجائیں تو وہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی مشکلات کا بھی خندہ پیشانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ حالات و واقعات نے ثابت کیا ہے کہ عوام ہر مرحلے پر حکومتی اقدامات میں ساتھ دینے کے لئے تیار رہتے ہیں بشرطیکہ اس کا مقصد معاشی استحکام اور عوامی بہبود ہوماضی میں نواز شریف دور کاقرض اتارو ملک سنوارو مہم ہو یا پھر ماضی قریب میں سابق چیف جسٹس کی طرف سے ڈیم فنڈز میں عوام کی طرف سے عطیات جمع کرانا ہو ہر موقع پر عوام نے بھرپور شرکت کے ذریعے واضح کیا کہ ملکی مفاد کے لئے وہ ہر قسم کی قربانی دے سکتے ہیں۔