پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ مقابلے میں اکثر کھیل جذبات اور جذبات کھیل پر حاوی ہوتا ہے اور اِس پر تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے اور اِس پورے معاملے کا تعلق اب صرف کھیل سے نہیں رہا بلکہ اِس سے دلی نزاکتیں بھی جڑ چکی ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ چوبیس اکتوبر کی شب بھی جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ایک عالمی مقابلے میں پاکستان نے بھارت کے خلاف غیرمعمولی کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تو جذبات میں آ کر شائقین ِکرکٹ نے خوشیاں منائیں جن میں حسب ِتوفیق دھمال‘ بھنگڑا اور ناچ شامل تھا تاہم جذبات کا سب سے خوفناک مظاہرہ ’ہوائی فائرنگ‘ کی صورت کیا گیا‘ جس کے بارے میں خیبرپختونخوا کے طول و عرض سے اطلاعات موصول ہوئیں۔قانون شکنی کسی بھی موقع پر ہو ا سکی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہئے اور پھر اگر اس میں کسی کی جان کو خطرہ بھی ہو تو یہ معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ خوف یہ بھی ہے کہ ٹک ٹاک پر ہوائی فائرنگ کی ویڈیو جاری (upload) ہونے کے بعد کہیں اِس مسئلے کا حل اِس تجویز کی صورت سامنے نہ آئے کہ ’ٹک ٹاک‘ پر ہی پابندی عائد ہونی چاہئے جیسا کہ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ جب بھی گنتی کے چند صارفین سوشل میڈیا کا غیرمحتاط استعمال کرتے ہیں تو اُس کا نزلہ سارے صارفین پر جا پڑتا ہے اور کسی ایک یا چند لوگوں کی غلطی کی سزا سینکڑوں ہزاروں صارفین کو دیدی جاتی ہے۔ پشاور پولیس نے ثابت کیا ہے کہ اُس کے پاس سائبر کرائمز کی تفتیش کا مؤثر اور فعال نظام موجود ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ملزموں تک پہنچنے کی صلاحیت و استعداد اپنی ذات میں کافی نہیں ہوتی جب تک کہ معاشرے میں جرائم سے نفرت پیدا نہ کی جائے اور یہ نفرت اِس قدر زیادہ ہونی چاہئے کہ کسی بھی لحاظ سے بااثر افراد قانون کے اطلاق کی راہ میں حائل ہونا بھی چاہیں تو نہ ہو سکیں۔چوبیس اکتوبر کی رات پشاور میں جو کچھ بھی ہوا‘ اُس کی ملی جلی مثالیں دیگر اضلاع سے بھی سامنے آئیں۔ پشاور چونکہ مرکزی شہر ہے اِس لئے ہوائی فائرنگ کی آواز آتے ہیں گشتی پولیس کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ اُس رات بھی یہی ہوا لیکن جرم کی گھتی سلجھ گئی کہ پاک بھارت کرکٹ مقابلے کا فیصلہ ہوتے ہی پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ٹاک ٹاکرزنے سادگی میں ہوائی فائرنگ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کر دی۔ پشاور پولیس جو پہلے ہی ہوائی فائرنگ سے پریشان اور ہوائی فائرنگ کرنے والوں کی تلاش میں سرگرداں تھی اُس کے ہاتھ ثبوت لگ گیا اور یوں فائرنگ کرنے والے ٹک ٹاکر کی شناخت کر لی گئی اور اُسے گرفتار کرنے کیلئے مقدمہ بھی درج کر لیا گیا‘ پولیس کی جانب سے آن کی آن‘ ابتدائی تفتیشی رپورٹ (FIR)‘ درج کرنے کے بعد نہ صرف ویڈیو میں فائرنگ کرتے ہوئے دکھائی دینے والے نوجوان کو شناخت و تلاش کر لیا گیا بلکہ اِس جرم میں معاونت کرنے والے اُس کے ساتھی کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا جس کے بارے میں پولیس کے سوشل میڈیا (ٹوئیٹر) اکاؤنٹ سے متعلقہ ’ایف آئی آر‘ کی نقل بھی جاری کر دی گئی۔جہاں تک پاک بھارت کرکٹ ٹاکرے‘ کے بعد ’ہوائی فائرنگ‘ کرنے والے ’ٹک ٹاکرز‘ کا تذکرہ ہے تو اس نے اپنے خلاف قانونی کاروائی سے بچنے کیلئے قبل از گرفتاری ضمانت کروا لی۔ اِس ایک واقعے میں جہاں پولیس کی پھرتی اور صلاحیت دکھائی دیتی ہے‘ وہیں جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لمبے ہاتھ اور قانون کی مجبوریاں بھی عیاں ہوئی ہیں۔ سوال یہ اُٹھایا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا (ٹک ٹاک) پر ہوائی فائرنگ کی ویڈیو جاری کرنے والوں کو کس طرح علم ہوا کہ پولیس اُن کی تلاش میں نکل چکی ہے اور اُنہوں نے کم سے کم ایک رات حوالات میں گزارنے اور پولیس کی تفتیش‘ گھر پر چھاپے (بے عزتی) سے بچنے کیلئے ’قبل از گرفتاری ضمانتیں‘ حاصل کر لی۔ کسی بھی جرم کا تدارک اسی وقت ہی ہوتا ہے جب اس کیلئے اجتماعی کوششیں ہوں اور نہ صرف پولیس بلکہ تمام متعلقہ شعبے اور عوام اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔