پاکستان بمقابلہ افغانستان

کرکٹ کے عالمی مقابلوں (ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ) میں آج (اُنتیس اکتوبر) پاکستان کا مقابلہ افغانستان سے ہو رہا ہے‘ جو گروپ میں اگرچہ پاکستان سے نیچے ہے لیکن ’نیٹ رن ریٹ‘ کے لحاظ سے پاکستان سے بہتر اوسط رکھتا ہے اور افغانستان کے کھیل کو دیکھتے ہوئے اِسے کسی بھی طرح ’آسان ٹیم‘ قرار نہیں دیا جا سکتا اور یہی وہ نکتہ ہے کہ اگر پاکستانی کھلاڑیوں نے کھیل کے دوران کسی بھی موقع پر ایک لمحے کیلئے افغانستان کو معمولی ٹیم سمجھا تو یہ شکست جیسے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان نے فروری 2012ء سے عالمی ’ون ڈے کرکٹ‘ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا ہے جبکہ افغانستان نے پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ ائرلینڈ کے خلاف یکم فروری 2010ء کو کھیلا تھا اور یہ اب تک 85 ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیل چکا ہے جن میں سے 59 افغانستان نے جیتے‘ 25 ہارے اور ایک میچ بلامقابلہ اختتام پذیر ہوا ہے۔ جبکہ ون ڈے انٹرنیشنل مقابلوں نے افغانستان کی ٹیم 129 میچوں میں سے 62 جیت چکی ہے جبکہ 63 ہار چکی ہے اور ایک برابر رہنے کے علاؤہ تین میچز بلامقابلہ اختتام پذیر ہوئے۔ افغانستان کی ٹیم میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کر سکے اور یہی وہ عنصر ہے جس سے توجہ ہٹنی نہیں چاہئے۔ پاکستان ٹیم اور کرکٹ شائقین کیلئے ابتدائی 2 شاندار میچز کے بعد اور جاندار فتوحات دیکھنے کے بعد کوئی مقابلہ نہیں بھا رہا لیکن یاد رکھیں کہ جو بھی میچ ہو رہے ہیں‘ ان کے اثرات نہ صرف دیگر ٹیموں بلکہ خود پاکستان پر بھی پڑنے والے ہیں‘ اس لئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا ہر ایک مقابلہ اپنی جگہ اہم اور اپنی جگہ ضروری ہے۔ مختصر ترین فارمیٹ کی کرکٹ کے آغاز کو اب قریب سولہ سال ہونے کو ہیں لیکن ڈیڑھ دہائی سے بھی زیادہ کے عرصے میں ’بابائے کرکٹ‘ نے کبھی بنگلہ دیش کے خلاف کوئی ٹی ٹوئنٹی نہیں کھیلا تھا۔ ایک طرف یہ اہمیت تو دوسری جانب بنگلہ دیش کے لئے ورلڈ کپ میں مقابلے کی دوڑ میں واپس آنے کا دباؤ۔ اپنے پہلے مقابلے میں ’بنگال ٹائیگرز‘ سری لنکا کے خلاف ایک سو بہتر رنز کے ہدف کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہے تھے جبکہ اس کے برعکس برطانیہ کا پہلا وار ہی بہت کاری رہا اور اس نے گویا سب کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی جب دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کو صرف پچپن رنز پر ڈھیر کیا تھا۔ شاندار فتوحات کے ساتھ برطانیہ گروپ ون میں نمبر ون پوزیشن پر ہے لیکن اسے اپنے اگلے میچ آسٹریلیا‘ سری لنکا اور جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیموں کا سامنا ہے اور یہ تینوں ٹیمیوں کھیل میں ایک دوسرے کی سخت حریف سمجھی جاتی ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ شائقین کرکٹ کو آنے والے دنوں میں اچھا کھیل دیکھنے کو ملے گا۔ برطانیہ کو اپنی کارکردگی کا تسلسل جاری رکھنا ہوگا ورنہ ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش جیسے نسبتاً کمزور حریفوں کے خلاف اِس کی اب تک کی کامیابیاں ضائع ہو جائیں گی اور یہی صورتحال پاکستان کی ہے کہ اگر اِس نے آنے والے مقابلوں میں کسی بھی ٹیم کو معمولی سمجھا تو یہ اِس کی پہلے سے حاصل کردہ کامیابیوں پر پانی پھیر دے گی۔ شائقین کرکٹ کے لئے نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان مقابلہ یقینا حیران کن رہا ہوگا۔ پاکستان کے گروپ کی اِن دونوں ٹیموں کے درمیان ’اہم مقابلہ‘ دیکھنے کو ملا۔ اہم اس لئے کیونکہ اگر سب کچھ توقعات کے مطابق ہوتا تو یہ مقابلہ اُن ٹیموں کو آخری نمبر پر آنے کی ہزیمت سے بچا سکتا تھا۔کرکٹ میں پہلے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک نظر میں تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان‘ بھارت‘ نیوزی لینڈ اور افغانستان کی موجودگی میں نمیبیا اور سکاٹ لینڈ کے امکانات کم ہی ہیں۔ اس لئے ان کیلئے کوئی پوائنٹ حاصل کرنے کا سنہرا موقع یہی ایک میچ تھا۔ دونوں ٹیمیں کوالیفائنگ مرحلے میں بہت عمدہ کارکردگی دکھا کر پہنچی ہیں۔ سکاٹ لینڈ نے بنگلہ دیش کو شکست دے کر اپنے گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ نمیبیا نے نیدرلینڈز اور آئرلینڈ جیسی خود سے کہیں مضبوط ٹیموں کو شکست دے کر ”سپر بارہ“ ٹیموں میں جگہ بنائی تھی۔ دنیا میں کرکٹ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ مقابلے کی وجہ سے کھیل کے معیار میں بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پاکستان کے گروپ (ٹو) میں ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہیں اور یہ دونوں ٹیمیں اپنے اپنے ابتدائی میچ ہار چکی ہیں‘ جن کی ٹورنامنٹ میں واپسی کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پاکستان کیلئے افغانستان کے مقابلے بہتر سے بہتر کارکردگی نہ صرف اِس کے پوائنٹس بلکہ نیٹ رن ریٹ (NRR) میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔