کام کے بدلے خوراک کی پالیسی

افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے فوجی انخلاء اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی برادری نے بھی افغان عوام سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان اور چین نے طالبان حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ پاکستان اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بار بار امریکہ اورعالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ رونما ہونے کا خدشہ ہے اقوام عالم کو فوری طور پر افغانستان کی مدد کرنی چاہئے۔ افغانستان میں انسانی بحران کے اثرات رونما ہونے لگے ہیں کساد بازاری سے دوچار معیشت، بے روزگاری میں اضافے اور غربت کی شرح میں اضافے کے بعد طالبان حکومت نے کام کے بدلے خوراک کی ایک انوکھی سکیم متعارف کرائی ہے طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ پلان ملک میں انسداد فاقہ کشی میں مدد فراہم کرے گا۔ لوگوں کو کام کے بدلے میں کھانا فراہم کیا جائے گا،افغان حکومت کے ترجمان نے کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے بھوک اور بے روزگاری سے لڑنے کیلئے ایک نیا پلان بنایا ہے۔ اس کے تحت ہزاروں بے روزگار افراد کو کام کے بدلے میں تنخواہ کے طور پر گندم فراہم کی جائے گی۔کام کے بدلے خوراک کا پروگرام افغانستان کے تمام بڑے شہروں اور دیہات میں شروع کیا جائیگا۔ پروگرام سے صرف کابل میں 40 ہزار افراد مستفید ہوں گے۔افغان حکومت کو توقع ہے کہ اس اقدام سے بے روزگاری اور غربت کی شرح کم کرنے مدد مل سکتی ہے۔ حکومت نے کابل کیلئے 11 ہزار 600 ٹن گندم جبکہ جلال آباد، ہرات، قندھار اور مزار شریف کیلئے 55ہزار ٹن گندم مختص کی ہے۔افغانستان اگرچہ زرعی ملک ہے تاہم سوا چار کروڑ کی آبادی کی ضرورت کے مطابق زرعی پیداوار وہاں نہیں ہوتی۔ اس کی 80فیصد درآمدات اشیائے خوردونوش پر مشتمل ہوتی ہیں۔تنخواہ کی مد میں گندم کی فراہمی کا یہ منصوبہ عارضی طور پر قحط سے بچاؤ میں مفید ثابت ہوسکتا ہے مگر یہ غذائی بحران کا مستقل حل نہیں ہے۔ امریکہ نے فوجی انخلاء کا فیصلہ نہایت عجلت میں کیا ہے اس نے انخلاء کے بعد افغانستان کی تعمیر نو، بحالی اور معیشت کو سہارا دینے کا کوئی پلان نہیں دیا۔ افغانستان کیلئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی شاید اسی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ اپنے حالیہ انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے شرائط کی پروا کیے بغیر کیلنڈر پر مبنی انخلا کا فیصلہ کیا۔ اشرف غنی کی سربراہی میں افغان حکومت نے جاری جنگ کے اثرات کا غلط اندازہ لگایا، اشرف غنی سیاسی تصفیے کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے۔زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اشرف غنی حکومت نے سیاسی تصفیے کی بجائے سٹیٹس کو کو ترجیح دی۔طالبان حکومت کو بھی عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد سمیت اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ موجودہ دور کے گلوبل ویلج میں کوئی بھی ملک اپنی ضروریات خود پوری نہیں کرسکتا۔ افغانستان جیسے پسماندہ ملک کو زندگی کے ہر شعبے میں بیرونی امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام عالم کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کیلئے مروجہ بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد، انسانی حقوق کی ضمانت، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کو جائز حقوق دینے ہوں گے جس کا طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلق قائم کرنا طالبان حکومت کیلئے ناگزیر ہے۔ جن میں پاکستان، چین، ایران اور وسطی ایشیائی اسلامی ریاستیں شامل ہیں۔