پشاور کہانی: ٹریفک مسائل کا حل

یقینی اَمر ہے کہ اگر صوبائی دارالحکومت پشاور میں ٹریفک کا نظام حسب ِقواعد فعال ہو گیا تو ہر شعبہئ زندگی پر طاری اور ہر طرف بکھرے افراتفری (نفسانفسی) کے ماحول میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ ضرورت تحمل کی ہے اور بنا تحمل ٹریفک کو راہئ مستقل پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ اِس سلسلے میں پشاور ٹریفک پولیس کے سربراہ (چیف ٹریفک آفیسر) عباس مجید مروت نے انسداد تجاوزات مہم جاری رکھنے کا حکم دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اِس بارے میں روزانہ کی بنیادوں پر کاروائیاں کی جائیں اور بالخصوص مقررہ ’یک طرفہ (ون ویز)‘ پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کسی انتظامی عہدے پر فائز اعلیٰ شخصیت نے تجاوزات کے خلاف بلاتفریق کاروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہو اور اِس سلسلے میں تاجر برادری سے تعاون کی اپیل بھی کی ہو تاکہ (مبینہ طور پر) پشاور کی خوبصورتی کو یقینی بنایا جا سکے لیکن پشاور کی ٹریفک سے جڑے مسائل کا کوئی ایک رخ (پہلو) نہیں بلکہ اِس کے کئی محرکات ہیں۔  ڈرائیونگ لائسنس سے متعلق قواعد موجود لیکن اطلاق نہیں ہو رہا۔ ماحول دشمن دھواں اُگلنے والی گاڑیوں سے متعلق قواعد موجود لیکن اِن کا حسب ضرورت وسیع پیمانے پر اطلاق نہیں ہوتا۔ لوکل ٹرانسپورٹ اور لوکل ٹرانسپورٹ سے بین الاضلاعی و بین الصوبائی راہداریوں (روٹس) پر چلنے والی گاڑیوں میں مسافروں کی گنجائش اور اِن گاڑیوں کے روٹس پر چلنے کے حوالے سے ’روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی‘ کے قواعد کو ٹریفک اہلکاروں نے ممکن بنانا ہوتا ہے لیکن چونکہ ٹریفک کے بندوبست میں ایک سے زیادہ اداروں کا عمل دخل ہے اِس لئے کسی ایک ادارے کو مسائل کیلئے نہ تو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ٹریفک کا مسئلہ کسی ایک ادارے کی دلچسپی اور حسب قواعد کارکردگی سے حل ہونا ممکن ہے۔ اِس بارے میں صوبائی حکومت کو ’پشاور ٹریفک اتھارٹی‘ بنا کر جملہ متعلقہ اداروں بشمول ٹریفک پولیس اور روڈ ٹرانسپورٹ کو ایک اِدارے میں ضم کرتے ہوئے سزأ و جزأ کا نظام متعارف کرانا ہوگا تاکہ ٹریفک کی اِس ’اُلجھی ہوئی گھتی‘ کو سلجھایا جا سکے جو آبادی کے بڑھنے کے ساتھ سلجھ نہیں بلکہ مزید اُلجھ رہی ہے!ٹریفک قواعد اگر وضع کئے گئے ہیں تو اُن پر بلاامتیاز اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر (جزوی) نہیں بلکہ کلی طور پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کی ذہانت اور جذبے پر شک نہیں لیکن کیا اہل پشاور یہ پوچھنے کی جرأت کر سکتے ہیں کہ ہر طرف ٹریفک قواعد کی پھیلی ہوئی لاقانونیت کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا پشاور کے تمام موٹرسائیکل سوار ہیلمٹ کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ قواعد کی رو سے یہ لازمی ہے اور ایک موقع پر بنا ہیلمٹ موٹرسائیکلز کو پیٹرول کی فروخت بھی بند کر دی گئی تھی‘ جسے جاری رکھا جاتا اور مزید سختی کی جاتی تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی! دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ سبھی امور جو ٹریفک قواعد کی رو سے جرم کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں‘ اُن سے متعلق نرمی اور اُنہیں لاگو کرنے کیلئے نت نئی مہمات اور یقین دہانیوں کی نہیں بلکہ خاطرخواہ سختی (بلاامتیاز و تفریق) قواعد پر عمل درآمد کی ضرورت ہے البتہ ٹریفک پولیس اہلکاروں اور عوام کے درمیان خوش اخلاقی پر مبنی تعلق استوار کرنے اور ٹریفک قواعد سے متعلق تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات جیسے پہلوؤں پر زیادہ کام ہونا چاہئے۔ فیصلہ ساز اگر چاہیں تو ”ٹریفک رضاکار“ کے دستے بنا کر عمومی و خصوصی ایام میں نہ صرف ٹریفک قواعد پر عمل درآمد یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ اِن رضاکاروں کی خدمات سے استفادہ شعور و آگاہی پھیلانے (عام کرنے) کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے جو حتمی ہدف ہونا چاہئے کیونکہ مقولہ ہے کہ کسی قوم کے مہذب (تہذیب یافتہ) ہونے کا اندازہ اُس کے ہاں ٹریفک کے بہاؤ اور پھیلاؤ کو دیکھ کر لگایا جا سکتاہے۔