محمود غزنوی،تصویر کادوسر ا رخ 

گذشتہ ماہ افغان طالبان رہنما اور حقانی نیٹ ورک کے سیاسی شعبہ کے سربراہ انس حقانی کی طرف سے سلطان محمود غزنوی کے مزار پر حاضری دی گئی تھی اس موقع پر انہوں نے غزنی میں سلطان محمودغزنوی کے مزار پرحاضر ی دیتے ہوئے نہ صرف اس عظیم مسلمان حکمران کو شاندارالفاظ میں خراج عقیدت پیش کیاتھا بلکہ طالبان حکومت کو غزنوی کے جانشینوں کی حکومت بھی قراردیاتھا ان کے اس دورے سے بھارتی انتہاپسند حلقوں میں اشتعال پھیل گیا اور اس وقت بھارت میں سوشل میڈیا پر سومنات مندر ٹاپ ٹرینڈ بن گیاتھا سومنات مندر کی تصاویر دھڑادھڑ شیئر کی جاتی رہیں جن کے ساتھ ہی نفرت انگیز اورتعصب پرمبنی تبصرے بھی پھیلائے جاتے رہے یقینا افغانستان میں بھارتی کردار ختم ہونے کے صدمے کے بعد انس حقانی کی طرف سے محمود غزنوی کے مزار پرحاضری نے بھارت کے زخم پھرسے ہرے کردیئے تھے جس کے ساتھ ہی ہندو پریس میں سلطان محمود غزنوی کے خلاف بدترین تبصرے شرو ع ہوگئے تھے اگر دیکھاجائے تو ہندوستانی مؤرخین اور انگریز وں کے پروردہ لکھاریوں نے محمود غزنوی کے اس جرم کو ناقابل معافی قراردیاہے کہ وہ ہندوستان پر سترہ بار حملہ آورہوا اوریہاں کے بت کدوں میں صدیوں سے بے مصرف پڑے زروجواہر کو کو غزنی لے گیا تاریخ جانتی ہے کہ محمود غزنوی اس دورکا اتنا بڑا آدمی تھا جس کی مثال اس پورے دور میں کہیں نظر نہیں آتی محمود غزنوی وہ انسان تھاجس نے اسلام اور تہذیب اسلامی کی وہ خدمت کی جوعہد اول کے مسلمانوں کاخاصہ ہوا کرتی تھی مسلمان اسے بت شکن کہتے ہیں ہندو اور انگریز انہیں لٹیرا قراردیتے ہیں اس سلسلہ میں کبھی وقت ملے تو معروف مصنف رشید اختر ندوی کی کتاب مسلمان حکمران کامطالعہ ضرور کیاجائے درحقیقت انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا اقتدا رمضبوط رکھنے کی خاطر مسلمان فاتحین کے حوالہ سے بے بنیاد تاریخ نگاری کو فروغ دے کر نفرت کی فضا کو مزید گہر اکردیاتھا جہاں تک محمود غزنوی کاتعلق ہے تو وہ بت شکن تھا مگرلٹیرانہ تھا اس نے مندرو ں میں پہنچ کر بت توڑے مگر یہ بت شکنی اس لیے نہیں کی کہ بت خانوں کی دولت کاحصول اس کا مقصد تھا یہ حقیقت ہے کہ ان نے جن بت کدوں کو برباد کیا ان میں جمع دولت اس نے وہاں پڑی نہ رہنے دی وہ اسے غزنی لایا یوں اس نے بت شکنی بھی کی اور صدیوں کی جمع کی ہوئی دولت کو ہوابھی دکھائی غیر جانبدار مؤرخین کے مطابق محمود غزنوی نے بت شکنی کی تو اللہ نے اسے صلے میں ہزارو ں من سونا جواہرات اور نجانے کیا کچھ عطاء فرمایا اس نے بت شکنی کی تو ہندوستان کے وہ زرو جواہرجو ہزاروں برس سے ہندوستانی بت کدوں میں پڑے ہوئے تھے جو بھوکے انسانوں کے منہ سے روٹی چھین کراور جو انسانوں کو محتاج رکھ کر اس وقت کے ہندوحکمرانوں اور راجوں نے یہاں ایک طرح سے دفن کردیئے تھے وہ انسانوں کے استعمال میں آئے مورخین کاکہناہے کہ بلاشبہ وہ ساری دولت غزنی لایا لیکن اس نے یہ ساری دولت غزنی لاکر خزانوں میں دفن نہیں کی اس نے اپنے سپاہیوں کو اس میں وافر حصہ دیا محتاط اندازے کے مطابق دو لاکھ فوج اس کے طفیل خوب خوشحال ہوئی یہ دولت افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیل گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ محمود کی فتوحا ت ایک بڑے انقلاب کی بنیاد بنیں کیونکہ ان فتوحات کی بدولت صدیوں سے دفن پڑی دولت دنیا کے کروڑوں انسانوں کی خوشحالی کاباعث بنی اس نے خزانوں کے منہ فلاح عام کے لیے کھول دیئے تھے اس نے لوگوں کی تعلیم کااہتمام کیا ہر مسجد کے ساتھ مدرسہ کھولا جہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی اور وظائف بھی دیئے جاتے سلطان کے زمانے میں غزنی جیسا غیر معروف شہر علوم وفنون اورتہذیب وتمدن کا گہوارہ بن گیا تھا اور اسے وہی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جو بغداد،غرناطہ اور قرطبہ کی تھی دوردور سے علمافضلاء اور شعراء غزنی پہنچ گئے تھے اس نے غزنی میں یونیورسٹی قائم کی جو بغداد کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتی تھی اس یونیورسٹی میں جملہ علوم وفنوں کی تعلیم دی جاتی تھی وقت کے بڑے معلمین اوراساتذہ کو سلطا ن نے یہاں بڑی بڑی تنخواہوں کے ذریعہ جمع کیاتھا ان کو بھاری انعام واکرام سے نوازتاتھا یونیورسٹی کانظام بغداد اور قرطبہ یونیورسٹی کے طرزکاتھا ہر مضمون اورہرفن کے الگ شعبہ اور مستقل نگران کے تابع تھا ہرشعبہ اورفن کے الگ امتحان ہوتے ایران عراق بلخ بخارا اور موجودہ وسط ایشیائی علاقوں سے طلبا حصول علم کیلئے غزنی آتے جن کو حکومت کی طرف سے وظائف دیئے جاتے جبکہ تعلیمی اخراجات بھی حکومت ہی برداشت کرتی یونیورسٹی خودکفیل ادارہ تھا ایک بڑی زرخیززمین ان کے نام وقف تھی مورخین کادعویٰ ہے کہ غزنی کی یہ یونیورسٹی پورے ایشیاء میں اپنی مثال آپ تھی یونیورسٹی کے ملحقہ سکولوں کاسلسلہ پوری مملکت میں پھیلاہواتھا ہرشہر اور ہر قصبہ میں وہاں کے باشندو ں کیلئے درسگاہیں قائم تھیں محمود نے شعرو سخن کی ترقی میں بھی بہت حصہ لیا اس نے اپنے وقت کے تمام بڑے شعراء اپنے دربار میں جمع کرلیے تھے کہاجاتاہے کہ چارسو کے لگ بھگ شعراء کو باقاعدہ تنخواہیں دی جاتی تھیں محمود غزنوی نے فارسی کے سرمایہ ء اشعار میں بھاری اضافہ کیا ہزاروں کی تعدادمیں علماء اور فضلاء کو کو بھی وظائف دیئے جاتے تھے مشہور مؤرخ ابو القاسم فرشتہ کاکہناہے کہ وہ دولت ضرور جمع کرتا لیکن وہ یہ دولت خرچ بھی کرتاتھا اس کے زمانے میں علوم وفنون کو خوب فروغ ملا اسی طرح اپنے وقت کے بڑے مؤرخ ابن کثیر کاکہناہے کہ اتنی بڑی سلطنت کا مالک ہونے کے باوجود وہ بڑ ادیانت دار اور نیکو کار تھا وہ بڑا عادل اور منصف بادشاہ تھا ہمیشہ محمود غزنوی کاایک ہی چہرہ دکھایا جاتاہے کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور مندروں کو لوٹ کرچلاگیا مگر کبھی بھی ان حملوں کے پس منظر اور اس وقت کے حالات واقعات سے آگہی نہیں دی جاتی تاکہ نوجوان نسل کو اس حوالہ سے گمراہ کیاجاسکے فرصت ملے تو محمود کے علمی،ادبی،مجلسی اور تہذیبی خدمات کابھی جائزہ لیا جائے محمود غزنوی آج ایک ہزار برس بعدبھی ظلم کاساتھ دینے والوں کو سینوں پر مونگ دلنے میں مصروف ہے اور یہی اس فاتح کی سب سے بڑی کامیابی اور تاریخ کا ظلم پرستوں سے سب سے بڑا انتقا م ہے۔