معیاری تعلیم  اور قومی ترجیحات 

معیاری تعلیم“ فراہم کرنا حکومت کی ”ذمہ داری“ ہے بالخصوص معاشرے کے اُن طبقات کیلئے معیاری تعلیم کا بندوبست حکومت ہی نے کرنا ہوتا ہے جو مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتے اور بصورت دیگر ایسے طبقات کیلئے بنیادی تعلیم تک کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں تعلیمی بندوبست اور تعلیم کے فروغ سمیت آئینی ذمہ داری کی ادائیگی سے متعلق صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سال 1990ء کے بعد سے آمدن و اخراجات کے ہر میزانئے (وفاقی و صوبائی بجٹ) میں شعبہئ تعلیم کیلئے پہلے سے زیادہ مالی وسائل مختص کئے جا رہے ہیں اور اِس میں نمایاں تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ حکومت نے نجی تعلیمی اداروں کو مراعات دی ہیں اور تعلیم کے فروغ میں اُن کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے لیکن اپنی ذمہ داری کسی دوسرے کے سر ڈالنے جیسے باسہولت بندوبست سے خرابی یہ پیدا ہوئی ہے کہ نجی اداروں  میں سے بعض کیلئے شعبہئ تعلیم صنعت کا درجہ رکھتا ہے جس کی وجہ سے درس و تدریس کاروباری انداز میں چلایا جاتا ہے اور اِسے نفع نقصان کے نکتہئ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے وزارت ِتعلیم کے سرکاری ملازمین (تدریسی و معاون عملے) کی کارکردگی و دلچسپی کے معیارات کو بلند کرنے کیلئے نگرانی اور سزأ و جزأ جیسے تصورات متعارف کروائے گئے ہیں لیکن اِن سب کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور نسبتاً بہتر و نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنے میں نجی تعلیمی اداروں کی ساکھ سرکاری تعلیمی اداروں سے بہتر ہے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ اُن کی کوششیں اور قومی مالی وسائل اگر رائیگاں جا رہے ہیں تو اِنہیں کس طرح درست کیا جا سکتا ہے اور اگر نجی تعلیمی اداروں کا تدریسی و عمومی نظم و ضبط بہتر ہوتا ہے تو آخر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا ہے کہ حکومت اور نجی شعبے کے اشتراک سے (تجرباتی طور پر) تعلیمی اداروں کے انتظامی امور چلائے جائیں؟تجربہ شرط ہے کہ اگر سرکاری اداروں کے انتظامی امور درست ہو جائیں تو تدریسی عمل (خواندگی اور امتحانی نتائج) بھی بتدریج بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔ شعبہئ تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں سے جب کبھی بھی بات کی جائے تو اُن کی جانب سے آبادی کی ضروریات کے مطابق تعلیمی اداروں کی کمی‘ مالی وسائل کے ناکافی ہونے اور ہر سال پہلے سے زیادہ مالی وسائل مختص کرنے کا حوالہ دیا جاتا ہے جبکہ مذکورہ تینوں امور صرف انتظامی تبدیلی سے بہتر (درست) کئے جا سکتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کیلئے وضع کردہ ملازمتی قواعد میں دوران ملازمت اور بعداز ملازمت کارکردگی کے احتساب میں محکمانہ اختیارات کو کم سے کم رکھا گیا ہے۔ اگر کسی ملازم (معلم یا معاون) کے خلاف انتہائی محکمانہ کاروائی کی بھی جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے، اس لئے حالات بہتر ہونے کی بجائے بد تری کی طرف گامزن ہیں۔سال 2019ء میں شائع ہونے والی کتاب ”Pakistan at Seventy“ میں اقتصادی امور کے ماہر شاہد کاردار نے ایک باب لکھا جبکہ سال 2018ء میں شائع ہونے والا ایک تحقیقی مقالہ ”Comparative Education Review“ کے مصنف اندرابی نے شعبہئ تعلیم کے مسائل بارے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو سمجھنے یا اِس میں اصلاحات کی خواہش رکھنے والوں کو کم از کم مذکورہ دونوں مطبوعات کا مطالعہ کرنا چاہئے‘ جن میں حقائق کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا باعث بننے والی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا خلاصہ اُس وقت قابل فخر محسوس نہیں ہوتا جب خود حکومتی دستاویزات میں کہا جاتا ہے کہ ملک کے 50 لاکھ بچے ایسے ہیں جو بنیادی اور ابتدائی درجات میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے اور 60 فیصد ایسے بچے ہیں جنہیں بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تعلیم کے سلسلے کو سیکنڈری (ثانوی) درجے میں جاری رکھنا چاہئے لیکن وہ ابتدائی تعلیم کے بعد سکولوں کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ اِن دونوں (ابتدائی اور ثانوی) طلبہ کی تعداد کو جمع کیا جائے تو حاصل یہ سامنے آتا ہے کہ پاکستان میں پانچ سے سولہ سال عمر کے چھبیس لاکھ (22.6 ملین) بچے ایسے ہیں جو تعلیمی اداروں سے استفادہ نہیں کر رہے اور آبادی کا صرف 25 فیصد حصہ (پندرہ سال یا اِس سے زائد عمر) ثانوی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ جنوب ایشیائی ممالک میں ثانوی تعلیم کی اوسط شرح 60فیصد ہے جبکہ متوسط آمدنی رکھنے والے خطے کے ممالک میں یہ اوسط 54.5 فیصد جبکہ پاکتان میں 25 فیصد ہونے کا مطلب ہے کہ تعلیم سے متعلق قومی ترجیحات اور عمل درآمد میں ربط پیدا کئے بغیر تعلیم کے فروغ سے متعلق اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے اور جہاں تعلیم حاصل کرنے کی اوسط شرح خطے کے ممالک سے بھی کم ہو‘ وہاں معیاری تعلیم کا مطالبہ تو کیا جا سکتا ہے اِس کے پورا  ہونے کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔ تعلیم کے شعبے میں شکستگی (ناکامی) اور شکست (نامرادی) کی روداد کے سیاسی محرکات اپنی جگہ لائق توجہ ہیں۔