معاشی استحکام کا عوامی مفہوم

وزارت خزانہ نے رواں مالی سال کے ابتدائی تین مہینوں میں بجٹ خسارہ 745ا رب روپے ظاہر کیا ہے۔اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نان ٹیکس ریونیو میں کمی، قرضوں پر سود کی ادائیگی میں اضافے اور ممکنہ طور پر شرح سودبڑھنے سے بجٹ خسارے میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق حکومت کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق مجموعی قومی پیداوار کے 1.4 فیصد کے مساوی رہا۔مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر نے 14کھرب روپے کا ریونیو جمع کیا۔ 3ماہ کے دوران ایف بی آر کا جمع کردہ ریونیو سالانہ ہدف کا تقریبا ایک چوتھائی ہے۔ پاکستان کے عام شہری کیلئے بجٹ خسارہ، سٹاک ایکس چینج میں تیزی یا مندی، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور ریونیو اہداف میں کمی بیشی معنی نہیں رکھتے۔ عام شہری آٹا، چینی، گھی، دالوں، گوشت، چکن، انڈوں، دودھ، دہی اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی کو معاشی استحکام سمجھتا ہے۔ سرکار نے مختلف بین الاقوامی تجزیاتی اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر ملکی معیشت کو روبہ استحکام ظاہر کرکے عوام کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے کہ مشکل وقت گذر گیا۔اب بتدریج حالات معمول پر آرہے ہیں جس کے اثرات عام آدمی کو جلد نظر آئینگے۔ جبکہ دوسری جانب ادارہ شماریات کے مطابق 2021کے دس مہینوں میں چینی 36 روپے 52 پیسے فی کلو اضافے کے بعد 120 روپے 52 پیسے فی کلو ہوگئی، آٹے کا بیس کلو والا تھیلہ 224 روپے 72 پیسے اضافے کے بعد 1198 روپے 50 پیسے ہو گیا۔گھی کی اوسطاً فی کلو قیمت 101 روپے16 پیسے بڑھی جبکہ مٹن 150 روپے62 پیسے، بیف 88 روپے67 پیسے،ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر ایک ہزار روپے سے زیادہ مہنگا ہوگیا۔1400روپے کا بارہ کلو والا سلینڈر اب 2559روپے کا ہوگیا۔مالی سال کے ان دس مہینوں میں دودھ، دہی، دال مسور، دال چنااور سبزیوں و پھلوں کی قیمتوں میں بھی پچاس فیصد تک اضافہ ہوا۔ جبکہ مرغی کا گوشت 120روپے کلو سے 260روپے کلو تک جاپہنچا۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ کورونا کی مہیب وباء ہے جس نے دنیا کی معیشت کا تیاپانچہ کرکے رکھ دیا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے میں دیگر عوامل کا بھی عمل دخل ہے۔ اوپن مارکیٹ کی چیکنگ کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں۔ایک وفاقی وزیر کا بیان نظر سے گذرا۔کہتے ہیں کہ اپوزیشن والے چینی اور آٹا مہنگا ہونے پر شور مچانے کے بجائے ان چیزوں کی قیمتیں کم کیوں نہیں کرتے کیونکہ ملک میں تمام فلور ملیں اور شوگر ملیں ان کی ملکیت ہیں۔ وفاقی وزیرکے ان ریمارکس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس ملک میں چند لاکھ افراد یا چند ہزار خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا ہے۔ وہ پالیسیاں بھی بناتے ہیں ان پر اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے عمل درآمد بھی کراتے ہیں۔یہاں ملازم پیشہ، متوسط اور غریب طبقہ ہی بے آسرا اور تختہ مشق ہے۔اگر حکومت اس ستم رسیدہ طبقے کیساتھ زرا بھی ہمدردی رکھتی ہے تو ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے مرہم رکھنے کی کوشش کرے اور مہنگائی کے خاتمے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ذخیرہ اندوزی اور اس کے طرح کے دیگر عوامل جس سے عوام کو اشیاء مہنگی ملنے کا خطرہ ہو اس کا تدارک بروقت کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں اشیاء کے نرخوں پر خصوصی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اشیائے صرف کے سرکاری نرخناموں کی پابندی نہ کرنے والوں کو موقع پر جرمانہ کیاجائے اس سلسلے میں مجسٹریسی نظام کی بحالی ایک موثر کوشش ثابت ہوسکتی ہے۔ جس کی طرف  توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے‘عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اقتصادی اشاریے کیا کہتے ہیں اور ڈالر کی اڑان کتنی ہے ان کو تو اس سے غرض ہے کہ اشیائے خوردونوش مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں اور ان کی زندگی پر سہولت ہو۔