ایک کشتی: کئی خطرات

خیبرپختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی نے حال ہی میں صوبے کے مختلف حصوں میں کاروائیوں کے دوران ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش اور اِن کی تیاری میں استعمال ہونے والے  مضر صحت کیمیائی مادے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے‘ تاہم یہ نہیں کہا کہ اِن کاروائیوں کا ’کامیاب پہلو‘ کیا ہے اور کیا آئندہ ملاوٹ شدہ یا مضر صحت اشیائے خوردونوش کی فروخت جاری رہے گی یا یہ سلسلہ رک جائے گا؟ یہ نکتہئ بھی لائق توجہ ہے کہ جن ملاوٹ شدہ یا ناقص المعیار اشیا کا ذکر کیا جاتا ہے وہ صرف انسانوں ہی کیلئے نہیں بلکہ ہم زمین جملہ مخلوقات کیلئے نہ مضر ہیں بلکہ جان لیوا حد تک خطرناک ہوتی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ اتھارٹی کی کاروائیوں میں پشاور میں ایک کارخانے سے چار ہزار کلوگرام آلو کے غیرمعیاری چپس اور بیس کلوگرام مضرصحت کیمیائی مادوں پر مشتمل (مصنوعی) رنگدار مادے برآمد کئے گئے ہیں اور اِسی قسم کی اشیاء ٹانک‘ لوئر دیر  اور بنوں میں مارے گئے چھاپوں کے دوران بھی برآمد کی گئی ہیں‘ جہاں بڑی مقدار میں مضرصحت دودھ کی صورت محلول تلف بھی کیا گیا ہے۔ پشاور کے کئی علاقے ایسی صنعتی بستیاں ہیں جہاں  جانوروں کی آنتوں سے حاصل کردہ چربی سے روغن (تیل) حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اِس روغن کی بدبو کو ختم کرنے کیلئے اِس میں کیمیائی مادے شامل کئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اِس کیمیائی عمل کیلئے جس علم کی ضرورت ہوتی ہے وہ ملاوٹ کرنے والوں کے پاس نہیں ہوتا بلکہ اِسے وہ ایک خاص قیمت کے عوض خریدتے ہیں! فوڈ اتھارٹی چھاپے مار کر کسی فیکٹری کو سربمہر تو کرتی ہے لیکن اُس کے اصل مالک‘ بیوپار کے شراکت داروں اور بیوپاریوں (جملہ سہولت کاروں) پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ اِس طرح ملاوٹ کرنا جرم ہے لیکن ملاوٹ شدہ اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا‘ یہ اشیا آرڈر پر تیار کروانے والے‘ انہیں ذخیرہ کرنے والے اور انہیں تھوک و پرچون میں فروخت کرنے والوں کا احتساب نہیں کیا جاتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ حالیہ کاروائی میں بھی جو کیمیائی مادے اور مضر صحت اشیا برآمد کی گئی ہیں اُن کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیا مارکیٹ سے کھلے عام مل جاتی ہیں لیکن خریدوفروخت کے ایسے مراکز کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی اِس خریدوفروخت کو باقاعدہ بنانے کیلئے قواعد پر نظرثانی کی جاتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن کیمیائی مادوں کو انسانی صحت کیلئے مضر قرار دیا جاتا ہے‘ اُن کا دیگر جانداروں (مال مویشیوں) کیلئے بھی استعمال یکساں مضر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ایسی دوائی جو انجکشن کی صورت دودھ دینے والے جانوروں کو اِس لئے لگائی جاتی ہے کہ اِس سے گائے یا بھینس کا اعصابی نظام کچھ وقت کیلئے کام کرنا چھوڑ دے اور اِس کے نتیجے میں اُس کے تھنوں سے زیادہ دودھ حاصل ہو عمومی عمل ہے اور اگرچہ اِس مقصد کے استعمال ہونے والے کیمیائی مادے (دوا) کی کھلے عام فروخت پر پابندی عائد ہے لیکن ایسی ادویات کا حصول ناممکن نہیں اور شاید ہی خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں کوئی ایک بھی ایسا باڑہ ہو گا جہاں گائے بھینسوں کو مذکورہ انجکشن نہ لگایا جاتا ہو!دودھ دینے والے جانوروں (گائے بھینسوں) کو ’آکسی ٹوسین‘ نامی کیمیائی مادہ  بذریعہ انجکشن دیا جاتا ہے۔ تیس ملی گرام کے اِس مادے کی بوتل جس سے کئی انجکشن بنائے جا سکتے ہیں یعنی تین ملی لیٹر کو متعدد مرتبہ استعمال کیا جا سکتا ہے کی قیمت تیس سے پچاس یا زیادہ سے زیادہ سو روپے ہوتی ہے اور اِسے لگانے کے بعد نہ صرف دودھ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے بلکہ اِس کے گاڑھے پن میں اضافے کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے جس سے مال مویشیوں کے معالجین سلوتری اتفاق نہیں کرتے اور بتاتے ہیں اِس سے دودھ کا معیار خراب ہوتا ہے۔ ہر روز ایک ہی کیمیائی مادہ دینے سے جانور کی صحت اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ وہ اندرونی طور پر کمزور اور لاغر ہونا شروع ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر قدرت کی جانب سے گائے یا بھینس کے تھن میں جس قدر دودھ کی مقدار دھوہنے کے بعد رہنی چاہئے‘ وہ باقی نہیں رہتی اور اِس سے جانور کو تھنوں کے امراض لاحق ہوتے ہیں‘ جو پیچیدہ صورت اختیار کرجاتے ہیں اور گائے یا بھینس کے بچے کو بھی اُس کی جسمانی ضرورت کے مطابق دودھ (خوراک) نہیں مل پاتا۔ ہم انسان اِس بات کو تو سمجھتے ہیں کہ بچے کیلئے ماں کا دودھ ضروری ہے بالکل اِسی طرح گائے بھینس کے بچھڑوں کیلئے بھی دودھ بنیادی غذائیت فراہم کرتا ہے اور اُن کی نشوونما میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ کسی گائے یا بھینس کو انجکشن لگا کر اُور اُس کے اعصابی نظام پر مصنوعی طریقے سے غلبہ حاصل کرنے سے دودھ میں ایسے اجزأ (ہارمونز) بھی شامل ہو جاتے ہیں جو دودھ کے معیار کو متاثر کرتے ہیں۔دودھ حاصل کرنے والے وقت کی بچت اور زیادہ دودھ کی صورت زیادہ منافع حاصل کرنے کیلئے جو طرزعمل اختیار کئے ہوئے ہیں وہ خیبرپختونخوا کے کسی ایک ضلع کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔ غذائی اجزأ کو ملاوٹ سے پاک رکھنے کیلئے پہلی ضرورت قومی سطح پر قانون سازی کی ہے تاکہ کسی بھی صورت ملاوٹ جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والے عدالتوں سے معمولی جرمانے یا چند روزہ سزاؤں کے بعد رہا نہ ہوں۔ دوسری ضرورت اُن سبھی کیمیائی مادوں کی فروخت پر پابندی یا کنٹرول کی ہے جن کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ رہی بات عمومی ملاوٹ جیسا کہ چائے کی پتی‘ مصالحہ جات اور غذائی اشیاء میں ناقص المعیار اجزأ کے استعمال کا ہے تو اِس کیلئے سب سے پہلے کارخانوں کی رجسٹریشن کے قواعد پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بنا اجازت اشیائے خوردونوش کی تیاری کو ممنوع قرار دیا جائے۔ بیکریوں کیلئے اشیا تیار کرنے والے کارخانوں میں کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کئے جائیں تاکہ استعمال ہونے والی اشیا کا معیار اور طریقہ کسی بھی دیکھا (معائنہ) کیا جا سکے۔