شاعر محور نوری نے کہا تھا کہ ”جب توقع کا سلسلہ ٹوٹا …… خوش گمانی کا دائرہ ٹوٹا۔“ بس یہی صورتحال خیبرپختونخوا کی سرکاری جامعات کی ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران 9 جامعات کا اضافہ ہوا اور منجملہ سرکاری جامعات (یونیورسٹیز) کا ’مالی بحران‘ اِس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کئی اداروں کو ماہانہ تنخواہوں اور جاری اخراجات کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں مارچ دو ہزار اکیس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے اُن کے مطابق جامعہ پشاور (یونیورسٹی آف پشاور) کے اخراجات کو اگر فی طالب علم تقسیم کیا جائے تو یہ 3 لاکھ روپے سالانہ بنتے ہیں اور اِسی قسم کے فی طالب علم بلند اخراجات گومل یونیورسٹی (ڈیرہ اسماعیل خان) اور زرعی یونیورسٹی پشاور کے بھی ہیں۔ مالی بحران کا شکار اِن تینوں جامعات کے ملازمین کیلئے تنخواہیں اور پینشن کیلئے بھی مالی دستیاب نہیں ہوتے۔جامعات کا مالی بحران اچانک پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی یہ تحریک انصاف کے دور ِحکومت کے دوران (اگست 2018ء) ظاہر ہوا ہے بنیادی بات (لب لباب) یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی سرکاری جامعات میں مالی و انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے اور یہ تجویز کردہ اصلاحات (کڑوی گولی کی صورت علاج) جس قدر جلد نافذ کی جائیں گی اُسی قدر جلد سرکاری جامعات کا مالی بحران ختم ہوگا جس کا بہرحال تعلق اِنتظامی نظم و نسق سے ہے کہ سرکاری وسائل سے استفادہ اور مالی وسائل خرچ کرنے میں غیرضروری فراخدلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن یہ مسئلہ صرف سرکاری جامعات ہی کا نہیں بلکہ جملہ سرکاری دفاتر کا ہے۔تحریک انصاف حکومت نے جس طرح سرکاری علاج کی سہولیات کو مالی و انتظامی خودمختاری دے کر اُن کی آمدن و اخراجات میں توازن قائم کیا ہے بالکل اِسی طرح سرکاری جامعات میں بھی بھرتی کے قواعد سے لیکر اِن کے اخراجات اور توسیعی منصوبوں (ترقیاتی امور) کے ایک خاص تناسب کو جامعات کی آمدن سے مشروط کیا جا سکتا ہے سرکاری جامعات میں اصلاحات کیلئے خیبرپختونخوا اور قومی سطح پر سوچ بچار کرنے والے اگر انتظامی امور نجی شعبے کی شراکت داری اور بالخصوص جامعات کو تحقیق کے مراکز میں تبدیل کرتے ہوئے اِنہیں سے قریب کر دیں تو صرف بہتر نہیں بلکہ بہترین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں جامعات ہر شعبہئ ہائے زندگی سے متعلق تحقیق اور سوچ بچار کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن پاکستان میں نصابی تعلیم اور عملی زندگی میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ آنکھیں کھولنے سے پہلے روتا ہے اور پھر گردوپیش کو حیرت سے دیکھتا ہے بالکل اِسی طرح جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی اکثریت جب عملی زندگی میں قدم رکھتی ہے تو اُن کے چہروں پر حیرت دیدنی ہوتی ہے کہ جو تعلیم و تربیت اُنہوں نے جامعات میں حاصل کی ہوتی ہے اُس کا عملی زندگی ربط بنانے کیلئے اُنہیں یا تو اپنے شعبہئ تعلیم سے الگ کسی دوسرے شعبے میں ملازمت کرنا پڑتی ہے یا پھر تجربہ حاصل کرنے کے نام پر اُنہیں عملی تربیت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ فیصلہ ساز سے توقع ہے کہ وہ صرف جامعات کے مالی بحران ہی پر نہیں بلکہ جامعات کی سطح پر تعلیم کے عمومی معیار اور تحقیق و تربیت کے پہلوؤں پر غور کریں اور جامعات کو حقیقی معنوں میں جامع بنائیں کہ اِن سے معاشرے کی انفرادی اکائیوں اور اجتماعی طور پر توقعات پوری ہوں۔کسی بھی ملک میں جامعات وہاں پر تحقیقی مراکز کی حیثیت رکھتی ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے تیز تر اصلاحاتی عمل پایہ تکمیل تک پہنچے تاکہ ملک حقیقی ترقی سے ہم کنار ہو اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کو کم خرچ بنانا بھی ضروری ہے کیونکہ زیاد ہ اخراجات کے باعث باصلاحیت افراد اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رہتے ہیں جس کا نتیجہ ٹیلنٹ ضائع ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے یہ وہ اہم نکات ہیں جن پر توجہ دینے کی ازحد ضروری ہے۔