سیاستدانوں کی دلچسپ پیش گوئیاں 

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر زراعت منظور وسان نے اپنی تازہ پیشگوئی میں پانچویں مرتبہ حکومت جانے کی نوید سنائی ہے۔ کہتے ہیں کہ سلیکٹ ہونے والوں کی حکومت کی مہلت پوری ہوگئی اب الیکٹ ہونے والوں کا دور شروع ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات انہوں نے یہ کہہ دی کہ عنقریب ملک میں انتخابات ہوں گے جس کی جتنی سیٹیں ہونگی اس کے بعد طے کیا جائے گا کہ کس کو حکومت دینی ہے،ہوسکتا ہے کہ آئندہ سیٹ اپ میں پی پی پی اورن لیگ مشترکہ طور پر حکومت بنائیں یا پھر اپوزیشن میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔وزیراعظم سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ مجھے کپتان کا مستقبل غیر یقینی اور کھلاڑیوں کاتابناک نظر آرہا ہے،منظور وسان کا دعویٰ ہے کہ ان کی سو فیصد پیشگوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ پیش گوئی غلط ثابت ہو ہی نہیں سکتی کہ ملک میں انتخابات ہوں گے جو پارٹی اکثریت حاصل کرے گی وہ حکومت بنائے گی۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کو اگر اقتدار میں آنے کی مطلوبہ اکثریت نہیں ملی تو وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گی۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کے ایک سینئر وزیر نے جوابی پیش گوئی میں انکشاف کیا ہے کہ اپوزیشن کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں مزید دھڑے بندیاں ہونے والی ہیں۔کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر آنے والے ہیں اور ان مقدمات میں ملوث اپوزیشن کے آدھے لیڈرز جیل کی سلاخوں کے پیچھے جائیں گے اور ان کی جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں امیدوار ہی نہیں ملیں گے۔سیاست دانوں کی پیش گوئیوں کے برعکس برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔یہاں کے معروضی حالات دیگر جمہوری ملکوں سے بہت مختلف ہیں۔ ایشوز اور معاملات سے ہٹ کر ہمارے ہاں زیادہ تر دوستی، رشتہ داری کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں انہی عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ جنہیں دوسرے الفاظ میں الیکٹ ایبلز کہاجاتا ہے۔ ان کو ہر طرح کے حالات میں ووٹ لینے کا فن آتا ہے اور کسے معاملے یا ایشو پر ووٹ لینے کی بجائے ذاتی تعلقات، برداری کے رشتے ناطے ان کیلئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ ایسے افراد پارٹیوں کی ضرورت بنتے جار ہے ہیں۔ کیونکہ جس طرح کے حالات ہیں ان میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کیلئے عوام سے ووٹ لینے میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔انہی افراد کے بل پر کامیابی کے امکانات بڑ ھ جاتے ہیں۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے بعض سیاست دان ہر پانچ سال بعد پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں۔اس سے ان پارٹی کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت سے نظریاتی یا جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔اس سیاسی رجحان سے سیاسی جلسے، جلوسوں، ریلیوں، زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کی گونج ختم ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ یہ کام پارٹی کے کارکن سرانجام دیتے ہیں ان کارکنوں کو اپنی قربانیوں کے صلے میں پارٹی ٹکٹ ملنے کی توقع ہوتی ہے جب یہ توقع ہی اٹھ جائے تو پارٹیاں جانثار کارکنوں سے محروم ہوسکتی ہیں۔ جو کسی بھی طرح ہمارے سیاسی نظام اور جمہوریت کے حق میں نیک شگون نہیں، اسلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں دیگر ممالک کی طرح مختلف اہم ایشوز، معاملات اور بھلائی و بہبود کے منصوبوں کے ذریعے عوام سے ووٹ حاصل کریں اور حکومتوں کی تشکیل میں دیرینہ اور نظریاتی کارکنوں کی خدمات کو نظر انداز نہ کریں، ا س سے جہاں مثبت سیاسی رویے پروان چڑھیں گے وہاں سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کی صورت میں جمہوریت کو ملنے والی عوامی تائید میں بھی اضافہ ہوگا‘ اور جس قدر زیادہ عوامی حمایت سیاسی جماعتوں کو حاصل ہوگی اس قدر ہی جمہوریت مستحکم ہوگی تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کے حل کو اولین ترجیح قرار دیں۔