پاکستان میں بینکاری کا شعبہ دباؤ سے گزر رہا ہے‘ جس کی صورتحال سے متعلق ایک اعلیٰ عہدیدار نے توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بینکوں سے متعلق حکومتی پالیسی میں تبدیلی نہ آئی تو یہ منافع بخش شعبہ خسارے میں چلا جائے گا۔ توجہ طلب ہے کہ دنیا بھر میں بینکوں (نجی مالیاتی اداروں) کو ایک ایسے کردار کی صورت دیکھا جاتا ہے جس کی سوچ ہمیشہ اپنی ذات یعنی اپنے منافع تک محدود ہوتی ہے لیکن پاکستان میں بینکیں ظالم ہونے (ولن) کا کردار ادا کرنے کی بجائے بذات خود ظلم کا شکار (دوچار) دکھائی دیتی ہیں اور اِس صورتحال کا ایک رخ یہ ہے کہ حکومت ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافے (ٹیکس نیٹ بڑھانے) کی بجائے ٹیکس وصولی کی موجود صلاحیت پر زیادہ بوجھ ڈال دیتی ہے اور اِس مقصد کیلئے بینکوں کا استعمال کیا جاتا ہے‘ فی الوقت بینکوں کیلئے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح پینتیس فیصد ہے یعنی غیر بینکنگ کاروبار کے لئے یہ ٹیکس شرح اُنتیس فیصد سے چھ فیصد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بینکوں کیلئے کیپٹل گین اور ڈیویڈنڈ کی آمدنی کے سلسلے پر بھی اِسی اضافی شرح سے ٹیکس لگایا جاتا ہے جو دیگر مالیاتی کمپنیوں کیلئے کم کردہ شرح کے برعکس ہوتا ہے۔ اِس سب کے باوجود بھی بینکوں کو چار فیصد کی شرح سے ’سپر ٹیکس‘ نامی ایک خصوصی ٹیکس سالانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ٹیکس سال دوہزار پندرہ میں خصوصی حالات کی وجہ سے ایک سال کیلئے نافذ کیا گیا تھا تاکہ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات میں معیشت و معاشرت کی بحالی اور انہیں خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد جو مقامی لوگ وہاں سے داخلی طور پر بے گھر ہوئے ہیں اُنہیں مالی امداد دی جائے۔ تب قبائلی اضلاع میں امن و امان کو بحال کرنے کیلئے بینکنگ اور نان بینکنگ کمپنیوں پر لگایا جانے والا مذکورہ چار فیصد ٹیکس لگایا گیا۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ ابتدائی طور ایک سال کیلئے نافذ کیا گیا مذکورہ ٹیکس کی مدت میں حکومت ہر سال توسیع کرتی آ رہی ہے۔ سال دوہزاراُنیس میں ’سپر ٹیکس‘ کو غیر مالیاتی اداروں (بینکنگ کمپنیوں) کیلئے مرحلہ وار ختم کر دیا گیا لیکن اِسے بینکوں کیلئے غیر معینہ مدت کیلئے بڑھا دیا گیا اور یہ ٹیکس اب ایک مستقل شکل میں جاری ہے۔بینکوں پر عائد ’ٹیکس کہانی‘ صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر بینک کے سالانہ منافع اور سالانہ کم معیادی یا طویل معیادی سرمایہ کاری پر اضافی انکم ٹیکس بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ بینکوں میں جمع ہونے والی رقومات اگر ’ایڈوانس ٹو ٹیکس شرح‘ سے چالیس فیصد کم ہوں تو اُن پر پانچ فیصد ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے جبکہ چالیس سے پچاس فیصد ڈیپازٹ شرح کی صورت اضافہ ڈھائی فیصد الگ سے دینا پڑتا ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ چالیس فیصد ’ڈیپازٹ شرح‘ رکھنے والے بینکوں کو کل منافع پر چالیس سے ساڑھے بیالیس فیصد ٹیکس تک ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار جو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر جاری ہوئے کے مطابق بینکاری کا شعبہ سالانہ 217.3 ارب منافع کماتا ہے اور اِس پر عائد ٹیکسوں سے حکومت کو 94.5 ارب روپے منافع حاصل ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے گزشتہ تین برس کے دوران مالیاتی اداروں نے اپنے کل منافع پر اڑتیس سے چوالیس فیصد کے درمیان ٹیکس ادا کیا ہے۔بینکاری کے شعبے پر صرف ٹیکس ہی نہیں بلکہ مختلف اقسام کی شرح فیسیں اور جرمانے بھی عائد کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’سٹیٹ بینک‘ نے ’ڈیپازٹ پروٹیکشن کمپنی‘ کے نام سے ایک خصوصی شعبہ قائم کیا ہے جس کے تحت ہر صارف کے پانچ لاکھ روپے تک کا بیمہ ہوتا ہے کہ اگر خدانخوستہ کوئی بینک دیوالیہ ہو جائے تو اِس بیمے کی رقم سے اُس کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ بظاہر یہ بہت اچھا بندوبست ہے کہ اِس سے صارف کے حقوق کا تحفظ عملاً ممکن ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف پانچ لاکھ کی بجائے صارف کی اکاؤنٹ میں جمع کردہ کل رقم کے حساب سے بیمہ کے سالانہ پریمئم کی کٹوتی بینک سے کی جاتی ہے جو بیمہ شدہ رقم سے زیادہ بھی ہو تب بھی بینکوں سے کٹوتی ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ بینکوں کو خاص شعبوں میں لازماً قرضہ جات دینے کا بھی پابند بنایا جاتا ہے جیسا کہ چھوٹی صنعتیں (سمال انڈسٹریز) اور زرعی قرضہ جات ایک خاص تناسب سے ہر بینک کو دینے ہوتے ہیں اگر کوئی بینک اِن شعبوں میں قرض نہیں دیتا تو اُسے جرمانہ کیا جاتا ہے جبکہ یہ دونوں شعبے بینک کی نظر میں اِس وجہ سے ترجیح نہیں ہوتے کیونکہ اِن کے صارفین اکثر دیوالیہ ہو جاتے ہیں جس سے بینک کا دیا گیا قرض ڈوب جانے کا احتمال رہتا ہے۔ اِن دونوں شعبوں میں قرضہ جات دینے کیلئے بینکوں کو اپنی شاخیں دور دراز علاقوں میں کھولنا پڑتی ہیں۔ مالیاتی امور سے متعلق حکومتی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ بینکوں کے تحفظات بارے سنجیدگی سے غوروخوض کریں۔