انسان میں نئی اور قدرتی اینٹی بایوٹکس

پنسلوانیا: امریکی سائنسدانوں نے انسانی جسم میں قدرتی طور پر پائے جانے والے ایسے درجنوں نئے ’پیپٹائیڈ‘ مرکبات دریافت کیے ہیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے طاقتور ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) بنائی جاسکیں گی۔

واضح رہے کہ اینٹی بایوٹکس کے خلاف جرثوموں (بیکٹیریا) میں بڑھتی ہوئی مزاحمت ایک سنگین طبّی مسئلے کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے جسے حل کرنے کےلیے ماہرین ہر ممکن طریقہ آزمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ایسی ہی کوششوں میں یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے سیزر ڈی لا فیونتے نونیز اور ان کے ساتھیوں نے مصنوعی ذہانت اور طاقتور کمپیوٹروں کی مدد سے اب تک دریافت شدہ تمام انسانی پروٹینز کا ڈیٹابیس کھنگالا۔

اس تلاش کا مقصد ایسے نئے پیپٹائیڈز دریافت کرنا تھا جو ممکنہ طور پر جراثیم کش خصوصیات رکھتے ہوں۔ طبّی زبان میں انہیں ’’اینٹی مائیکروبیئل پیپٹائیڈز‘‘ یا مختصراً ’’اے ایم پیز‘‘ (AMPs) کہا جاتا ہے۔

پہلے مرحلے میں انہیں 2,603 نئے ’’امیدوار‘‘ اے ایم پیز ملے۔ مزید تفصیلی اور محتاط مطالعے کے بعد، ان میں سے 55 ایسے اے ایم پیز شناخت ہوئے جن میں جراثیم کش خصوصیات کا امکان سب سے زیادہ محسوس ہوا۔

ان پیپٹائیڈز کو بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا کی آٹھ سخت جان اور ڈھیٹ اقسام کے خلاف آزمایا گیا تو ان میں سے 35 پیپٹائیڈز نے جراثیم کش خصوصیات کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔

یہی نہیں بلکہ جسم کے مختلف حصوں میں قدرتی طور پر پائے جانے والے دوسرے پیپٹائیڈز کے ساتھ مل کر ان اے ایم پیز کی جراثیم کش صلاحیت میں 100 گنا اضافہ ہوگیا۔

چوہوں پر مزید تجربات میں ان نئے دریافت شدہ اے ایم پیز نے نہ صرف موجودہ طاقتور اینٹی بایوٹکس سے بھی بہتر کارکردگی دکھائی، بلکہ ان کے استعمال پر کوئی منفی اور زہریلے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) بھی سامنے نہیں آئے۔

ریسرچ جرنل ’’نیچر بایومیڈیکل انجینئرنگ‘‘ کے تازہ شمارے میں نونیز اور ان کے ساتھیوں نے بتایا ہے کہ نئے پیپٹائیڈز کسی بھی خطرناک جرثومے کی جھلی (میمبرین) پھاڑ کر اسے ہلاک کردیتے ہیں۔

پیپٹائیڈز کے حملے کے خلاف بیکٹیریا اپنی اگلی نسلوں میں بھی مزاحمت پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔

مطلب یہ کہ ان پیپٹائیڈز کو استعمال کرکے ایسی نئی ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) بنائی جاسکیں گی جو موجودہ اینٹی بایوٹکس سے زیادہ مؤثر ہوں گی، جبکہ خطرناک جراثیم ان کے خلاف مزاحمت بھی پیدا نہیں کر سکیں گے۔